مسلمانوں نے یروشلم کو اپنے خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی الله تعالی عنہ کے دور میں فتح کیا تھا. یہ ساتویں صدی 637 عیسوی کی بات ہے. سوفرونیس ایک عیسائی حکمران تھا اور اس نے یروشلم صرف حضرت عمر بن خطاب کے حوالے کرنے کی شرط رکھی تھی. حضرت عمر وہاں گئے اور سوفرو کے ساتھ اس شہر کا دورہ کیا. کلیسا کے مقبرہ مقدسہ کے دورہ کے قریب نماز کا وقت آگیا اور سوفرو نے حضرت عمر بن خطاب کو کلیسا میں نماز کی دعوت دی مگر آپ نے یہ سوچ کر وہاں نماز پڑھنے سے منع کر دیا کہ کہیں مسلمانوں میں کلیسا میں نماز پڑھنے کی روایت نہ پر جائے، آپ نے کلیسا کے باہرنماز ادا کی. حضرت عمر بن خطاب کی سمجھداری کو دیکھتے ہوۓ آپ کو کلیسا کی چابیاں پیش کی گئیں آپ نے چابیاں مدینے سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کے حوالے کیں اور ان سے کلیسا کو کھولنے اور بند کرنے کی زمیداری سونپی وہ چابیاں آج تک اسی مسلمان خاندان کے پاس ہیں. 1193 میں صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الافضل بن صلاح الدین نے حضرت عمر کے نام پر ایک مسجد تعمیر کرائی جس کا نام مسجد عمر رکھا گیا ہے. اس کے بعد عثمانی سلطان عبدل مجید اول نے اپنے دورحکومت میں اس مسجد کی تزئین و آرائش کروائی. 1099 میں جب صلیبی جنگ کا آغاز ہوا تو پہلی جنگ کے دوران یہ مغربی عیسائی فوج کے قبضے میں چلا گیا. لیکن پھر 1187 کو صلاح الدین ایوبی نے اسے پھر آزاد کرا لیا مگر اس نے وہاں مسلمانوں اور عیسایوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کو بھی وہاں بسنے کی اجازت دے دی. 1219 میں ایوبی خاندان کے سلطان عیسی شرف الدین نے شہر کی دیواروں کو مسمار کروا دیا. 1229 میں یروشلم معاہدہ مصر تک فریڈرک دوم کے قبضے میں چلا گیا جس نے 1239 میں دوبارہ اس کی تعمیر کروائی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ امیر کرک نے وہ دیواریں دوبارہ مسمار کر دیں.
1243 میں دوبارہ یروشلم پر عیسائیوں کی حکمرانی ہو گئی. انہوں نے اس کی دیواروں کی پھر تعمیر کروائی. 1244 میں خوارزمی تاتاریوں نے اس شہر پر قبضہ کیا اور دیواریں ایک بار پھر مسمار کر دی گئیں. اس پرانے طرز کے شہر کی موجودہ دیواریں سلطنت عثمانیہ کے سلطان سلیمان اول نے تعمیر کرائیں ان دیواروں کی لمبائی تقریبا 4.5 کلو میٹر اور اونچائی میں 5 سے 15 میٹر کا اضافہ کیا اور اسکی موٹائی 3 میٹر ہے. اس پرانے شہر کے شمال مشرقی کونے میں چار محلوں میں مسلم محلہ سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی والا ہے اس کی آبادی 2005 میں 22،000 نفوس پر مشتمل تھی. یہ مشرق میں باب اسباط سے شمالی دیوار کے ساتھ حرم قدسی شریف اور مغرب میں مغربی دیوار کے ساتھ باب دمشق تک پھیلا ہوا ہے. 1929 کے فسادات سے پہلے یہاں بھی مسلم، یہودی اور عیسائی کی آبادیاں تھیں. مسیحی محلے میں زیادہ تر عیسائی رہتے تھے اور یہاں تقریبا ان کے 40 مقدس ترین مقامات ہیں. کلیسائے مقبرہ مقدس بھی وہاں ہی موجود ہے. یہ پرانے شہر کے شمال مغربی کونے میں واقع ہے. یہ شمال میں مغربی دیوار کے ساتھ باب جدید سے باب الخلیل تک پھیلا ہوا ہے. جنوب میں یہ آرمینیائی محلے اور یہودی محلے سے متصل ہے. مسیحی محلہ زیادہ تر مذہبی سیاحتی اور تعلیمی عمارتوں پر مشتمل ہے. آرمینیائی بھی عیسائی ہیں لیکن ان کا محلہ عیسائی محلے سے الگ ہے یہ پرانے شہر کے چار محلوں میں سے سب سے چھوٹا ہے.
1948عرب اسرائیل جنگ کے بعد یہ چاروں محلے اردن کے زیر انتظام آگئے. 1967 کی چھ روزہ جنگ کے نتیجے میں یروشلم اسرائیل کے قبضے میں آگیا. اور اس جنگ میں آرمینیائی خانقاہ کے اندر رکھے جانے والے دو بم پھٹ نہ سکے جو کسی معجزے سے کم نہیں تھا. اس وقت 3،000 سے زائد آرمینیائی یروشلم میں رہائش پزیر ہیں ان میں سے 500 آرمینیائی محلے میں رہتے ہیں. یہودی محلہ تاریخی مقامات سے بھرپور ہے اور یہاں آٹھویں صدی سے قبل مسیح سے تقریبا مسلسل یہودی آباد ہیں. یہ شہر دیوار بند شہر کے جنوب مشرقی علاقے میں آباد ہے. 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد یہ اسرائیل کے قبضے میں چند دن ہی رہا اس کے بعد اسرائیلی حکام مراکشی محلہ کے انہدام کا حکم دے دیا گیا اور وہاں پر رہنے والے لوگوں کو زبردستی وہاں سے نکال کر کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا تاکہ عوام کو دیوار گریہ تک کی رسائی کی آسانی ہو. جنوب مشرقی کونے میں یروشلم ایک 770 سال پرانا محلہ تھا جو مشرق میں مغربی دیوار اور حرم قدسی شریف سے متصل تھا. صلیبی جنگوں تک یروشلم کے چار اطراف میں چار دروازے تھے. جب سلطنت عثمانیہ کے سلطان نے موجودہ دیوار تعمیر کروائی تو اس نے اس کے گیارہ دروازے رکھوائے جس میں سے سات کھلے رہے اور چار دروازے بند کر دئے گئے. 1887 تک یہ دروازے فجر کے وقت کھلتے تھے اور مغرب کے وقت بند ہوتے تھے.
یروشلم میں مسلمانوں کا مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ بھی موجود ہے. مسجد اقصیٰ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے. مسجد اقصیٰ پر اسرائیل کا قبضہ ہے، یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے اس مسجد میں بیک وقت 5000 مسلمان نماز پڑھ سکتے ہیں. یہاں غیر مسلموں کا داخلہ بند ہے. حضرت عمر کے دورمیں جب مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو آپ نے شہر سے روانگی کے وقت صغرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور آپ نے وہاں اپنے ہمراہیوں کے ساتھ وہاں نماز ادا کی تھی قران مجید کی سورۂ بنی اسرائیل میں اس مقام کو مسجد اقصیٰ کہا گیا ہے اس لئے اس مسجد کا نام مسجد اقصیٰ رکھا گیا ہے. خلیفۂ عبدالملک بن مروان نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر شروع کی اور خلیفۂ ولید بن عبدالملک نے اس کی تعمیر مکمل کرائی اور اس کی تزئین و آرائش بھی کرائی. عباسی خلیفۂ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کروائی. جب عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تو انہوں نے اس مسجد میں کافی ردوبدل کی انہوں نے مسجد میں رہائش کے لئے کمرے بنا لئے جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے لئے استعمال ہوتی تھیں اور اس کا نام بھی بدل کے معبد سلیمان رکھا انہوں نے مسجد کے اندر گرجا بھی بنا لیا. سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب اسے دوبارہ فتح کیا تو اسنے مسجد کو ان تمام برائیوں سے پاک کیا اور دوبارہ اس کی تعمیر کی. مسجد کے قریب ایک چٹان ہے جس کے اوپر سنہری گنبد کا نام لکھا ہے. تیرہ صدیوں سے یہ دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں شمار ہو رہی ہے. یہ حرم قدسی شریف کا ایک حصہ ہے. خلیفۂ عمر بن مروان نے اس پر بہت زیادہ سرمایہ لگایا اور چٹان کے اوپر ایک گنبد بنوایا جو فن تعمیر کا ایک عظیم الشان شاہکار ہے. دنیا میں یہ گنبد قھتہ الصغرہ کے نام سے جانا جاتا ہے.
یہاں ایک اور مقام ہے جو قبتہ المعراج کے نام سے جانا جاتا ہے یہ وہ مقام ہے جہاں سے حضور نبی کریم صل الله علیہ وسلم معراج پر روانہ ہوۓ. یہاں ایک مسجد، مسجد عمر کے نام سے مشھور ہے یہ مسجد کلیسائے مقبرہ مقدس کے جنوبی صحن کے سامنے واقع ہے، یہ جگہ سوفرونئیس نے حضرت عمر کے حوالے کی تھی اور اس کی چابیاں بھی آپکو ہی دیں تھیں. یہاں ایک اور مقام بھی واقع ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر حضرت داؤد کے بیٹے سلیمان نے جنت سے زمین تک ایک زنجیر معلق کی تھی کسی جھگڑے کی صورت میں یہ زنجیر سچا انسان پکڑ لیتا تھا مگر جھوٹے کے ہاتھ میں یہ زنجیر نہیں آتی تھی، اسلامی روایت کے مطابق یہ زنجیر قیامت کے دن نیک لوگوں کو جنت میں پہنچائے گی جبکہ گنہگاروں کو روک دے گی. مصلی مروانی ایک زیر زمین جگہ ہے یہ مسجد اقصیٰ سے نیچے جانے والی سیڑھیوں پر واقع ہے اور اب ایک مسلم عبادت گاہ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے. یہودی مذھب کے مطابق یہاں ایک دیوار مقدس معبد کی باقیات میں سے ہے . یہ یہودیوں کی ایک زیارت گاہ ہے اس کے قریب ہی انکا مقدس ترین سینا گوگ ہے جس کو بنیادی پتھر کہا جاتا ہے. یہودی اسے بہت ہی معتبر سمجھتے ہیں وہ اس پر پاؤں نہیں رکھتے ہیں ان کے مطابق اس پر پاؤں رکھنے والا عذاب میں مبتلا ہوتا ہے. دیوار گریہ کو بےنقاب کرنے والی ایک زیر زمین سرنگ ہے.