urdu sexy stories

کہاں چلنا ہے صاحب

ایک طوائف کی کہانی

کہاں چلنا ہے صاحب, زیادہ دور تو نہیں؟ یہ کہتے ہوئے وہ اس شخص کے تعاقب میں چل پڑی اور سارا راستہ خاموشی کے ساتھ چلنے کے بعد منزل پر آ رکنے پر اس نے بہ یک سانس کئی سوالات کی بوچھاڑ کر دی  یہ جگہ محفوظ تو ہے؟

یہاں کسی کا گزر تو نہیں زیادہ؟

پولیس وغیرہ تو نہیں کہیں آس پاس؟ وغیرہ وغیرہ….. 

منظر تو ان باتوں کا عادی تھا اسکو کیا فرق پڑتا، بیٹھا رہا اور اتنے سب سوالات کا ایک ہی بار نفی میں سر ہلا کر جواب دے ڈالا – تم لوگ بھی تو ان سب کی عادی ہو – پھر بار بار یہی سوالات جیسے بالکل انجان ہو، آخر کیوں؟ 

نازنین بولی : صاحب میں عزت کرتی ہوں آپکی، مہربانی کیجیے گا کہ کلائنٹ کو میری تفصیلات سے آگاہ مت کیجئے گا – میں بہت مجبور ہوں – آپ کو اللہ نے وسیلہ بنایا ہے میرا، بس یہی وسیلہ کافی ہے  – 

اج منظر کا دل ہی کچھ عجیب سا تھا – نازنین کی باتیں قیامت ڈھا رہی تھیں اور منظر اس قیامت کی زد میں تھا – اس کا دل پگھلتا ہی چلا جا رہا تھا اور اس نے اپنے دل کی سن کر آخر نازنین سے کہہ ہی دیا کہ وہ. اسے اپنا سمجھ کر سب کچھ شئیر کر سکتی ہے – یہ جانتے ہوئے کہ وہ براے نام مگر طوائف تو ہے اور اس کے پیشے کے حوالے سے معاشرہ کن کن دو رخے خیالات کا عکاس ہے چہرے سے نقاب اٹھائے بغیر وہ گویا ہوئی : منظر صاحب میرے  تین بچے ہیں – یہ بہت چھوٹے تھے جب ان کا باپ دنیا سے چلا گیا – میرے سر سے چھت چھن گئی جب مالک مکان نے کہا کہ یہاں رینا ہے تو مجھے دن رات خوش رکھو ورنہ ابھی کے ابھی نکل لو – یہاں فالتو لوگوں کی جگہ نہیں نازنین میں آج صرف تمہاری باتیں سننے آیا ہوں اور بس – وہ مزید بولی : آخر یہ معاشرہ مجھ جیسوں کو بچوں کے ساتھ قبول کیوں نہیں کرتا؟ میرا سوال تو صرف آپ شریفوں سے ہے، اپنے جیسوں کے دلالوں سے نہیں – اس کے سوال نے منظر کے دل پر پتھروں کی جیسے بوچھاڑ کر دی ہو – اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا – 

کہنے لگی کہ ماں باپ کے گھر پہنچی تو بھائیوں کے آگے مجبور باپ کچھ نہ کر سکا سوائے کچھ ادھورے دلاسے دینے کے – بھائیوں کو بھی بہت واسطے دیئے کہ میں تم لوگوں کی ملازمت کرتی رہوں گی تمام عمر – مگر وہ بھی قابل قبول نہیں تھا. معمولی سی ملازمت کرنے کے لیے نکلی – ایک سکول میں مل تو گئی مگر وہی چیل، کوے اور مگر مچھ کی مثل پرنسپل کی باتیں اور حرکتیں جو کہتا کہ بس مجھے خوش کرو – منظر صاحب! کیا میرے جیسوں کو انسان ہونے کا بھی حق حاصل نہیں؟ 

منظر پر ایک بار پھر اوس گر گئی ہو جیسے – وہ اداس سا ہو گیا – اس کے ذہن میں اس وقت اپنی مطلقہ بہن کا خیال سرایت کرنے لگا جس کو دینے کے لیے اس بھائی کے پاس ایک دلاسہ تک نہ تھا – 

یکا یک اسکی روح کانپ گئی کہ نازنین کی جگہ اگر اسکی بہن فاخرہ ہو تو اس کے دل پر کیا بیتے گی – ایک دم ہی اٹھ کھڑا ہوا اور بھاگتے بھاگتے پیچھے مڑ کر صرف اتنا کہہ سکا کہ کل ملوں گا، ضرور آنا – گھر پہنچ کر سانس جو برابر بھی نہیں تھا، پانی پی کر کچھ درست کرنے کی کوشش کی – “فاخرہ، فاخرہ”……. حلق سے نکلتی مذبح جیسی آواز نے ساتھ نہ دیا اور پھر لگا اسکو گھر میں تلاش کرنے – اچانک دروازہ کھلا اور فاخرہ داخل ہوئ – کہاں تھیں تم؟ منظر چلایا – بھائی میں تو صرف ساتھ والوں کی طرف گئی تھی سہیلی کو اپنا سی وی دینے – 

نہیں میری بہن تم کیوں سی وی دو گی؟ تمہارا بھائی زندہ ہے ابھی اور یہ کہہ کر فاخرہ کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا – دوسرے دن چوراہے پر پہنچتے ہی دیکھا کہ نازنین حسب سابق برقع اوڑھے انتظار میں کھڑی تھی – چلیے صاحب! کہاں چلنا ہے؟ زیادہ دور تو نہیں؟ 

منظر گرا ہوا تھا – بمشکل بول سکا : ہاں نازنین، بہت دور – کہنے لگی کتنی دور صاحب؟ بچے پھر بھوک سے بلکنے لگتے ہیں اس لیے دور نہیں جاتی میں  ورنہ رزق جیسی اعلیٰ نعمت کو کون ٹھکرائے – ہاں نازنین، اس نعمت کو نہ ٹھکرانا – منظر بولا، میرے گھر چلو میں تم سے نکاح کروں گا – بچوں کو سرپرستی دوں گا – انکو اپنا نام دوں گا – یکدم نازنین کے قدم جیسے رک سے گئے ہوں – ممم م م میں….. آآاآپ پ پ ؟؟؟؟ 

ہاں نازنین میں تم سے وعدہ کرتا ہوں تمہیں کم سہی لیکن عزت کی روٹی دوں گا – مجھے معاف کرنا کہ تمہیں ایک پیشہ ور سمجھ کر اتنا کچھ کرتا رہا – ہم مل بانٹ کر مشکل وقت بھی گزار لیں گے اگر تم ساتھ دو گی – چند لمحے سوچ میں ڈوبے رہنے کے بعد نازنین آنکھوں میں آنسو اور دل میں خدا کا شکر لیے اس کے ساتھ چل دی معاشرے میں ایسی کتنی ہی نازنین جیسی خواتین ہیں جو اس معاشرے میں موجود ان مردوں کی مدد کے انتظار میں ہیں جو انکے مقدس رشتے ہیں مگر روز اس انتظار میں ناپاک لوگوں کی بھینٹ چڑھتی ہیں – 

خدا را، مرد کچھ احساس کریں کہ انکا یہ معاشرہ اگر صرف انکا ہے تو ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عورتوں کو جیسے مرضی روپ میں، لیکن عزت دیں – 

error: Content is protected !!