نسیمہ کسی گھر میں کام کرتی تھی اور اس کا شوہر بھی اسی گھر میں ڈرائیور تھا. نسیمہ کے سات بچے تھے. وہ سارا دن کام کاج کرنے کے بعد وہ جب گھر جاتی تو اسے گھر بھی بہت سے کام کرنا پڑتے تھے. نسیمہ اپنے کسی رشتے دار کے گھر میں کرائے پر رہتی تھی اسے گھر جا کر اپنے ان رشتے داروں کے لئے بھی کھانا بنانا ہوتا تھا اور ان کی کڑوی کسیلی باتیں بھی سننی پڑتی تھیں. نسیمہ کے گاؤں میں اسکی بہن جو ذہنی معذور تھی اور ایک ماں تھی جو بیوہ تھی اسے ان کے لئے بھی اپنی تنخواہ کا ایک معقول حصہ بھیجنا ہوتا تھا. نسیمہ کا شوہر کریم نشے کا عادی تھا مگر اس کے باوجود وہ نسیمہ سے بہت محبت کرتا تھا اور خود بھی اچھا خاصا کماتا تھا. نسیمہ نے اس پر زور دے کر اس سے نشہ چھڑا دیا تھا اور اب وہ دونوں بہت محنت سے مل کر کماتے تھے اور اپنے بچوں کو مل کر پالتے تھے انہوں نے کبھی اپنے بچوں کو غریب ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا تھا. نسیمہ کی دو بیٹیاں میڈیکل میں پڑھ رہی تھیں. ایک بیٹا یونیورسٹی میں بی بی اے کر رہا تھا اور دوسرا بیٹا اردو یونیورسٹی میں جرنلزم کے آخری سال کا طالب علم تھا اور تین بچے سکول میں پڑھتے تھے.
بدقسمتی سے کریم کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ دونوں ٹانگوں سے معذور ہو گیا تھا. آٹھ ماہ تک اس کے مالک جہاں وہ کام کرتا تھا اس کو گھر بیٹھے تنخواہ دیتے رہے تھے انہوں نے کریم کو نوکری سے نکالنے کی بجائے اسے فیکٹری کے کام پر رکھ لیا. نسیمہ کا اپنی کہانی سنانے کا یہ مقصد ہے کہ وہ اپنے جیسی عورتوں کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ اس دنیا میں ہمت اور حوصلے سے کام کرنے کی لگن ہونی چاہئے.
نسیمہ کہتی ہے کہ: زندگی میں نشیب و فراز تو آتے جاتے ہی رہتے ہیں آج میں نے محنت کر کے اپنی دو بیٹیوں کو ڈاکٹر بنایا اور اپنے دو بیٹوں کو پڑھا لکھا کر اس قابل کر دیا کہ بیٹیوں کی شادی اچھی جگہ پر ہو سکتی ہے اور بیٹے بھی اچھا کما سکتے ہیں میں جو کر سکتی تھی میں نے کر دیا لیکن میری اس محنت میں وہ باجیاں بھی شامل ہیں جن کے گھر میں، میں کام کرتی تھی انہوں نے بھی میرا بہت خیال احساس رکھا ہے میری آپ سب لوگوں سے درخواست ہے کہ آپ کے گھروں میں جتنی بھی نسیمہ کام کرتی ہیں آپ بھی انکا ساتھ دین تاکہ وہ بھی اپنے بچوں کے لئے کچھ نہ کچھ کر سکیں.