چاندنی بہت ہی خوبصورت اور معصوم تھی وہ جب پیدا ہوئی تو ہر کوئی اسے دیکھ کر اس کی خوبصورتی سے حیران ہوتا تھا. اس کا حسن کوئی معمولی نہیں تھا وہ چودھویں کے چاند کی طرح حسین تھی. اسی لئے اس کا نام چاندنی رکھ دیا تھا. اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہتی تھی کہ کاش اس کی بیٹی اتنی خوبصورت نہ ہوتی، اس کی یہ بات سن کر لوگ بہت حیران ہو کر اس سے پوچھتے کہ تم ایسی بات کیوں کہتی ہو؟ اس کی ماں کہتی کہ غریب کی کوئی عزت نہیں ہوتی اس کی بھی شادی غریب گھر میں ہی ہوگی تو اپنے گھر کو چلانے کے لئے اسے بھی کہیں نہ کہیں نوکری کرنی پڑے گی. اور کسی امیر کے گھر ملازم ہو کر اس کی بے باک نظروں کا شکار ہو کر زندگی بھر خود کو بچاتے گزرے گی. اس کی ماں کا کہنا تھا کہ بڑے ہونے کے بعد حسن ماند پر جاتا ہے اور پھر بیٹیوں کو رخصت کرنے کے لئے جہیز کی ضرورت ہوتی ہے بنا جہیز کے کوئی شادی نہیں کرتا. اس کی ماں کی یہ سوچ غلط ثابت ہوئی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چاندنی کا حسن بھی بڑھتا گیا وہ اپنی ماں کے ساتھ جب امیر گھروں میں کام کے لئے جاتی تو امیر لڑکیاں اس کے حسن سے جلتین وہ اس سے اتنے حسن کا راز پوچھتیں، چاندنی تیرا جسم کتنا پرکشش ہے کیا تو ورزش کرتی ہے؟ وہ کہتی کہ نہیں وہ تو گھر کے کام کاج کرتی ہے اور تو کچھ نہیں کرتی.
لڑکیاں اس کو کہتی کہ چاندنی تو شو بز کی دنیا میں جا کر کام کیوں نہیں کرتی؟ وہ پوچھتی وہ کیا ہوتا ہے؟ فلم اور ٹی وی کی دنیا، تجھے پیسہ بھی خوب ملے گا اور تیری شہرت بھی ہوگی تیرے پاس بنگلہ گاڑی سب کچھ ہوگا تو امیر ہو جائے گی. چاندنی نے کہا کہ یہ بات انٹی نے بھی امی سے کی تھی مگر امی نے مجھے سختی سے منع کیا ہے کہ میں ایسا کبھی نہ سوچوں اس دنیا میں دولت، شہرت اور عزت اپنا سب کچھ کھونے سے ملتا ہے تم کسی کی باتوں میں نہ آنا اگر تو اس دنیا کی طرف گئی تو تیرا باپ ہی نہیں میں بھی تیرا گلا گھونٹ دوں گی…
وہ ان سب باتوں کی جگہ اپنی ماں کی باتوں کو اہمیت دیتی تھی جو باتیں ماں اس سے کہتی تھی وہی باتیں اس سے ایک اور عورت کہتی تھی اس کے گھر میں سوائے ٹی وی کے سب کچھ ہی تھا وہ کہتی وہاں بھیڑیئے ہوتے ہیں انسان نہیں ہوتے. چاندنی نے یہ بات کئی مرتبہ نوٹ کی تھی کہ وہ جب بھی گھر سے اکیلی نکلتی تھی ارد گرد کے لوگ اسے گندی نظروں سے دیکھتے تھے وہ جہاں کام کرتی تھی وہاں کے مرد بھی اسے گھور گھور کر دیکھتے تھے. تب وہ بھی سوچتی کہ کاش وہ اتنی خوبصورت نہ ہوتی. لیکن اس میں ایک ایسی عادت اور کمزوری تھی کہ وہ چاہ کر بھی اس سے اپنی جان نہیں چھڑا سکتی تھی وہ حیران ہوتی کہ اس کے پاس ٹی وی یا ریڈیوں کچھ بھی نہیں ہے مگر وہ جب بھی کسی گلوکارہ کا گیت سنتی وہ بڑے غور سے ایک ایک لفظ یاد کر لیتی. وہ پڑھی لکھی نہیں تھی مگر پھر بھی وہ گانا ایسے گاتی کہ ایک ایک لفظ بولتا تھا. اسے فلموں کے تمام گیت، فلموں کے نام اور کس گلوکارہ نے گایا تھا سب اچھی طرح یاد تھا. وہ برتن دھوتے وقت گاتی اور برتنوں اور چمچوں سے ایسی موسیقی بجاتی کہ جیسے سر پیدا ہو. گگناتے ہوۓ چاندنی کے اندر ایسی پھرتی آجاتی تھی کہ پھر اس سے جتنا بھی کام کرالو وہ تھکن محسوس نہیں کرتی تھی. وہ اور اس کی ماں چودھری شرافت کے گھر کام کرتے تھے. چودھری اس کو اپنے قریب لانا چاہتا تھا مگر بات زیادہ نہ آگے گئی کیونکہ اس کی شادی ہو گئی تھی اس کی بیوی حسین تھی مگر شدید بیماری کی وجہ سے دو سال میں ہی اس کی وفات ہو گئی تھی اس کا بیٹا دو برس کا تھا. چاندنی وہیں پر ملازم تھی. چاندنی کی بھی شادی ہو گئی تھی. اور اس کا بیٹا بھی دو سال کا تھا جب اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا. وہ جب اپنے بیٹے کے ساتھ چودھری کے گھر جاتی تو چودھری کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ اس کا بیٹا نوکرانی کے بیٹے کے ساتھ کھیلے. مگر بیوی کے فوت ہو جانے کے بعد چودھری کا رحجان چاندنی کی طرف ہو گیا وہ موقع کی تاک میں رہتا تھا کہ کب موقعہ ملے اور وہ چاندنی کے حسن سے اپنی پیاس بجھائے، چاندنی اس کے ارادے بھانپ گئی تھی. ایک صبح ایسا واقعہ ہوا کہ جس نے سب کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا . رات کو کسی نے چاندنی کی ناک کاٹ دی. ناک کے کٹنے کی وجہ سے چاندنی کا حسن ماند پڑ گیا اور اب چودھری بھی اس سے دور رہنے لگا تھا. چاندنی کا بیٹا کاشف اب جوان ہو گیا تھا اور چاندنی نے اس کی شادی کر دی تھی، مگر بہو کے آنے کے بعد چاندنی کے لئے اور بھی مصیبت کھڑی ہو گئی تھی بہو کو برداشت نہیں تھا کہ اس کی نک کٹی ساس اس پر حکم چلائے وہ ہر وقت ساس سے لڑتی جھگڑتی رہتی ان جھگڑوں سے تنگ آکر ایک دن چاندنی کہیں چلی گئی اور ایک خط چھوڑ گئی. صبح کاشف نے جب ماں کو گھر نہ دیکھا تو وہ خط لے کر وہ چودھری کے گھر گیا اور اس سے پوچھا کہ ماں یہاں تو نہیں آئی ہے؟ چودھری نے پوچھا ہوآ کیا تھا؟ کاشف نے بتایا رات میری بیوی نے ماں کے ساتھ بدتمیزی کی تھی اور صبح وہ چلی گئی اور چاندنی کا دیا خط چودھری کے آگے کر دیا جس میں لکھا تھا کہ، بیٹا تمہاری بیوی اگر کہے کہ تیری ماں کی ناک کسی نے شرمناک حرکت کی وجہ سے کاٹی ہے تو تو شرمندہ نہ ہونا بیٹا میں نے اپنی ناک اپنی عزت اور تیری سلامتی کے لئے کاٹی ہے. چودھری یہ سن کر پستی اور شرمندگی میں دھنستا چلا گیا…..