حضرت بلال حبشی امیہ بن خلف کے غلام تھے، جب آپ کے اسلام لانے کا علم امیہ کو ہوا تو وہ اپکا جانی دشمن ہوگیا، اس نے حضرت بلال پر طرح طرح کے ظلم کیے ،صحرا کی تپتی ریت پر اپ کے سینے پر پتھر رکھ کر آپکو گھسیٹتا اور کہتا کہ چھوڑ دے اس دین کو مگر حضرت بلال کے منہ سے ایک ہی لفظ نکلتا احد ،احد …امیہ بن خلف ایک دن اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا اور وحشیانہ قہقہوں کے ساتھ ان سے کہ رہا تھا کہ آج میں ابو بکر رضی الله تعالی عنہ سے ایسا بدلہ لونگا کہ جسکو وہ ہمیشہ یاد رکھے گا، وہ حضرت بلال کے ایمان کو بہت کمزور سمجھتا تھا ،وہ یہ سوچتا کہ اس کے یہ ظلم انکو دین اسلام سے منکر کر دیں گے ،وہ اپنے ساتھیوں سے بولہ کہ میں نے بلال کو دین سے ہٹانے کے لیۓ کیا کیا نہ کیا اس کے ساتھ مگر وہ اپنے دن سے نہ ہٹا ،میں نے اسے گرم تنور میں ڈالا مگر اف، محمد صل الله علیہ وسلم کا جادو میں نہ اتار سکا، لوگوں نے چبھتے ہوۓ لہجے میں اس سے پوچھا کہ تم اب ایسا کیا کرنے والے ہو جو اتنا چہک رہے ہو جب تم پہلے محمد کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو اب ایسا کیا کرو گے ؟
وہ بولا ابو بکر کہتا ہے کہ بلال میرا بھائی ہے، ابو بکر کو اس سے محبت ہے وہ اسکی آزادی کی ہر قیمت چکانے کو تیار ہے، لوگوں نے کہا تو اس میں کیا چیز عجیب ہے ؟ وہ غصے سے بولا کہ میں اس سیاہ فام کی اتنی قیمت بتاؤں گا کہ وہ خود پیچھے ہٹ جائیں گے یا پھر وہ مجھے بدلے میں وہ چمکتی چیز دیں گے جو میں مانگوں گا، “سونا” سونا کیا عجیب کھیل ہے جس میں ابو بکر کی ہار اور میری جیت ہے ہا ہا ہا ہا، اسکی یہ بات سن کر لوگ بھی ہنس پڑے، اچھا تو یہ بات ہے بلال کی سخت جانی کے بعد اب ابو بکر کی ہمدردی کو بھی آزماؤ گے ہا ہا ہا ہا ……امیہ بن خلف کا خوفناک قہقہہ کسی بد روح کی بے ہنگم چیخ و پکار کی طرح گرجتا رہا، حضرت بلال کو گرم ریت پربھونا جاتا، سینے پر پتھر رکھا جاتا،کوڑے برس رہے تھے، احد، احد حضرت بلال کی کراہ تھی، جب حضرت ابو بکر نے یہ سنا تو بولے اس غریب کے سلسلسے میں تجھے خدا کا ڈر نہیں، حضرت بلال کی تکلیف، حضرت ابو بکر کو اپنے سینے میں محسوس ہو رہی تھی وہ اس درد پر تڑپ اٹھے، امیہ بن خلف نے کہا اس کے ذمے دار تم لوگ ہو کیوں تم نے اسکو اس کے دین سے ہٹایا تم نے اس کو بگاڑا ہے اتنا خیال ہے اس کا تو خرید لو اس کو… بتاؤ کیا خریدو گے اس کو ؟ اس نے حضرت ابو بکر سے پوچھا، ہاں ،میں اس کو ہر قیمت پر خریدوں گا، بتاؤ کیا قیمت لو گے اس کی ؟
امیہ بن خلف بولا ،تم بتاؤ کیا قیمت دو گے اس کی ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا ،میں اپنا طاقتور غلام قستاس تمہیں دیتا ہوں میں اس کے کفر سے بیزار ہوں اور تم ان کے اسلام سے ،مجھے ان سے محبت ہے تمہیں اس سے ہونی چاہئے ، غلام سے محبت کی بات سن کر امیہ کو برا لگا لیکن کچھ لمحے سوچنے کے بعد اس نے کہا ، ٹھیک ہے ، پھر ایک خوفناک قہقہ لگا کر بولا ، کہ اسکی بیوی بھی لونگا ، حضرت ابو بکر نے کہا ٹھیک ہے منظور ہے، مگر پھر امیہ بولا کہ اسکی بیٹی بھی لونگا، بیٹی کا نام سن کر حضرت ابو بکر رضی الله تعالی عنہ کچھ سوچنے لگے پھر بولے ٹھیک ہے بیٹی بھی دی، لیکن اسکی ہوس ختم نہیں ہو رہی تھی وہ پھر بولا ،میں خدا کی قسم ،بلال کے بدلے ،قستاس ،اسکی بیوی ،اسکی بیٹی کے علاوہ دو سو دینار بھی لونگا بولو ……بلال کو خریدتے ہو ؟ شرم کرشرم ….بار بار زبان بدلتے ہوۓ تجھے شرم نہیں آتی، حضرت ابو بکر رضی الله تعالی عنہ نے اس کے شرارت سے بار بار جھوٹ بولنے پر کہا ، لات و عزہ کی قسم بس یہ آخری بار ہے ،پھر سودہ طے ہے . حضرت ابو بکر نے کہا چل او کافر تیری یہ بات بھی مان لی ،مسلمان بھائی حضرت بلال کی غمخواری سے سر شار حضرت ابو بکر نے سینہ تان کر کہا، سودا ختم ،اور دونوں کی آزمائش ختم ،دونوں اپنی اس آزمائش میں پورے اترے، حضرت بلال کی جان اور حضرت ابو بکر کا مال، وہ دونوں اپنی اس آزمائش میں اس لیۓ کامیاب ہوۓ کہ ان دونوں کو الله اپنی جان و مال سے پیارا تھا