“ساحر “
بچھڑ کے تم جو ملتے تھے تو
یوں محسوس ہوتا تھا
کہ جیسے مرگ کے ُدھندلے اندھیروں
پہ پہنچتے ہی ادھورا کام کوئی
زندگی کو یاد آ جائے
میرے ساحر سے کہہ دینا!!
میرے ساحر سے کہہ دینا!!
وہ ساحر ہی تو تھا سحر طاری کر دینے والا! جس سے بھی ملتا تو ُاسے َپل میں اپنا بنا لینے کے فن سے بخوبی آشنا تھا- بولے تو گویا زبان کی چاشنی ہر سو پھیل جائے – لکھے تو قلم ایسے بولے کہ پڑھتی آنکھیں ِارگرد سے ماورا ہو جائیں- کچھ تو تھا اس میں کہ ہر کوئی اس پہ فریفتہ تھا۔ دوست احباب تو تہہِ دل سے گرویدہ ہو چلے تھے۔ مگر یہ تو اس کا ظاہر تھا جس تک رسائی سب کو ملی ہوئی تھی۔
کہیں ُاس کا اندر لہولہان تھا, کہیں کچھ ایسا تھا جسے وہ ُخود سے اور اوروں سے چھپائے بیٹھا تھا- کیا تھا وہ؟ کوئی ُخوف؟ کوئی ُامنگ؟ یا کچھ پا لینے کی لگن؟
میں نہیں جانتی کہ کیا شے ہے جو ُاسے مخحمور کیے ہوئے ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے مگر شاید ُخود کو کھونے سے ڈرتا ہے۔
وہ مصائب زدہ ہے یا خوف زدہ! اس بات کا تعین ُاسے کر لینا چائیے کیونکہ وہ سب کے لیے ساحر ہے۔ کہیں ایسا سحر طاری نہ کر دے کہ ُاس کی لپیٹ میں ُاس کے اپنے ہی آجائیں۔
اپنوں سے بھی کیا خوب یاد آیا بڑی محبت ُلٹانے والا انسان ہے, اپنوں کے غم میں پیسج جاتا ہے. ُان کی خوشی میں باولا سا ہو جاتا ہے, وہ ہر لحظہ ہر ساعت کو خوبصورت بنانے کا خواں ہے۔
ُاس کی ُآنکھیں بس یہی کہتی ہیں!!
میں جو صدیوں سےادھورا ہوں
مکمل کر دو
مجھے صندل کر دو!!
قلم کار: مبرّا