عروج کے لیے لفظوں کی جادوگری بڑی معنی خیز تھی لیکن کھبی کھبار لفظ ہی اسے تذبزب کا شکار کردیتے تھےایک مشہور مصنف کی کتاب پڑھتے ہوۓ ایک تحریر نے اسے پھر سوچوں کے گرداب میں پھنسا دیالفظخطرناک اور منفرد نے اس کی سوچ کی وادی میں ہلچل بپا کی ہوئی تھیمنفرد لوگ جتنے دوسروں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں،اس سے زیادہ خود ان کی ذات کو ان سے خطرہ ہوتا ہےتحریر کی خوبصورتی اور جاذبیت لکھنے والے کے ذہن کی حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہے اور اس تحریر نے اس پر منکشف کیا کہمصنف خود کس قدر منفرد ہے. یادوں اور سوچوں کے اسی ملبے پر اس کے سامنے ایک ایسی شخصیت ابھر آئی جو انفرادیت کا منہ بولتا ثبوت تھی. رحمان بابا، اس کی زندگی کا ایسا کردار تھے جنہوں نے اسے زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے کے قابل بنایا اور اسے سوچ کا ایک نیا زاویہ دکھایا، وہ خاص تھے باتوں میں، وہ خاص تھے عادتوں میں، سب سے الگ اور سب سے اچھوتے تھے وہ. نہ تو وہ نوبل انعام یافتہ تھے اور نہ ھی کسی مشہور انعام سے نوازۓ ہوۓ، وہ تو اس دنیا کے باسی تھے، جہاں کی رعایا اپنے ہر عمل کا صلہ ایک بادشاہ سے مانگتی ہےایسے لوگوں کا پئر نور چہرہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے. عروج کو بخوبی یاد ہے کہ ایک دفعہ وہ سوچوں کے گردآب میں گم تھی تو رحمان بابا، اس کے پاس آ کر بیٹھ گۓ اور کہابیٹی کیا بات ہے؟ وہ چونک گئ اور کہا کہچھ نہیں. چند ثانیہ بعد وہ گویا ھوئی بابا !آپ سے ایک بات پوچھوں؟
ضرور بیٹا، ،رحمان بابا نے پیار سے کہا. عروج نے کہا: بابا! یہ محبت کیا ہوتی ہے؟
رحمان بابا، پہلے تو اس تیرہ سالہ بچی کے منہ سے ایسا سوال سن کر ششدر رہ
گۓ اور پھر من میں کیا آئی کہ بولے: بیٹا!محبت
اس لافانی دنیا کی زمین پہ کھلنے والا ایک ایسا پھول ہے،جو کھبی مرجھاتا نہیں!
لیکن اس کی آبیاری انسان کو اپنے خون جگر سے کرنی پڑتی ہےانسان اپنے طلسم سے اس
پھول کے گرد ایک ایسا حصار بنا لیتا ہے،کہ وہ پھول پھر کسی اور کا ہو بھی نہیں
سکتا! محبت کا پھول خوشبو تو سب کو دیتا ہے لیکن رہتا اس ہی ایک کا ہے جو اس کے
گرد حصار بناتا ہے. عروج ہمہ تن گوش تھی. بابا!
پھر کھبی کھبی ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ پھول کسی اور کی آغوش میں گر گیا ہے؟ عروج
نے سوال کیا . رحمان بابا نے کہا: بیٹا! جب ہم کسی کے گرد حصار باندھتے ہیں تو وہ
صرف ہماری ہوتی ہے اور جس صورت کی تم بات کر رہی ھو تو اس میں ہماری اپنی غلطی ہوتی
ہے، کہ وہ پھول کسی اور کے حصار میں چلا جاتا ہے یاں پھر ہم کسی غلط پھول کو اپنا
سمجھ لیتے ہیں، یاد رکھو! جو چیز تمہاری ہے ہی نہں تو اس کے گرد تمہارا حصار خود
بہ خود کمزور ہوتا جاۓ گا یہ سب تو جذبات اور نصیب کا کھیل ہےجذبات کا کیا آج تیرے
تو کل کسی اور کے. اس لیے نفس سے لڑنا
جہادِافضل کہلاتا ہے
عروج کئچھ کہنے ہی لگی تھی کہ وہ بولے: بیٹا ! عورت مرد کی زندگی میں بہار لاتی ہے،تو عورت ہی مرد کی بہتری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے. اور عورت کے سر مرد کی کامیابی کا سہرا ھونا،عورت کی محبت کا سب سے بڑا ثبوت ہے. اس کے ان ہی رحمان بابا کو حق گوئی کے الزام میں پاداش سنائی گئی اور جب عروج نے ان سے کہا: بابا! سب کے لے بدعا کریں تو بابا نے کہا، بیٹا! کسی نے میرے ساتھ کئچھ نہھں کیا. جس دن بابا اس دنیا کو داغ مفارقت دۓ گۓ،عروج کو لگا کہ اس نے اپنی قیمتی چیز کھو دی. اسی خیال کے زیر سایہ،آنسوؤں کی آبشار اس کی آنکھوں سے بہہ گئی کسی کے نرم لمس اور میھٹی آواز نے اس کی سماعت میں رس گھول دیاکوئی کہہ رھا تھا، بیٹا! انسان،منفرد ھوتا، طرناک نہیں! میں اک عام سا انسان تھامجھے منفرد بنایا تو تمہاری سوچ کے انداز نےآج میں معتبر ہوں تو ہر اس انسان کی وجہ سے ،جس نے مجھے اچھے انداز میں سوچا! تم بھی اپنی سوچ کو بلند رکھو اور سب کے اذہان پہ انمٹ نقوش چھوڑ جاؤ ، اور ہاں! کھبی کسی کی نقل نہ کرنا کیونکہ منفرد انسان کا ہر انداز اپنا ہوتا ھے. عروج خود سے مخاطب ہوئی “منفرد انسان،انفرادیت سے لبریز ہوتے ھیں” ـ