شیر شاہ سوری
اپنی حکومت قائم رکھنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ھوتی ،حکومت میں انے سے پہلے تو ہر بندہ بڑے بڑے دعوے کرتا ہے لکن گدی ملنے کے بعد وہ بھول جاتا ہے کہ عوام نے اس سے کیا کیا توقعات رکھی ہوئی ہیں، اس منصب کو پوری ایمان داری سے چلانا بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ہے. اکثر لوگوں نے اس کرسی پر بیٹھ کہ اسکا ناجائز فائدہ ہی اٹھایا ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی قابلیت اور ایمان داری کا لوہا منوایا ہے، ایسا ہی ایک نام فرید خان کا بھی ہے، فرید خان اپنے باپ کا بڑا بیٹا تھا. اسکی مان سوتیلی تھی اور فرید سے بہت سخت نفرت کرتی تھی. تاریخ فرید خان کو شیر شاہ سوری کے نام سے جانتی ہے، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے وہ اپنے نام کی طرح ہی بہادر اور فہم و فراست اور معاملہ فہمی کی وجہ سے مشھور تھے. ،شیر شاہ کے والد بھی بہت بہادر تھے وہ جونپور کے حاکم امیر جمال خان کے یہاں ملازم تھے. امیر جمال خان نے انکی بہادری اور جراُت کی قدر کرتے ہوۓ انہیں پانچ سو سپاہیوں کا سالار مقرر کیا اور دو جاگیریں بھی عنایت کیں، اس دور میں پٹھانوں کے ہاں پڑھنے لکھنے کا کوئی رواج نہ تھا، وہ جنگ جو تھے اور فوج میں ہی اپنی بہادری پر دسترس حاصل تھی انکو،لیکن فرید خان کو فارسی ،ادب، تاریخ اور مذھب پر عبور حاصل تھا اس لیۓ انکا اتنا پڑھ لکھ جانا بڑی بات مانا جاتا تھا، جونپور اس وقت علم و ادب اور فنون کا گہوارہ تھا، پڑھائی کے بعد اپنے والد کے کام میں انکا ہاتھ بٹایا، ١٤٩٨ (چودہ سو اٹھانوے) سے لے کہ پندرہ سو اٹھانوے١٥٩٨ تک کا یہ دور بہت اہمیت رکھتا ہے اس دور میں اپ نے جو کارنامے سر انجام دیئے اس نے ثابت کر دیا کہ اپ ایک زبردست حکمران ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں، آپ نے پوری جاگیر کو قابل کاشت بنا کے جاگیر کی آمدنی میں اضافہ کیا، کاشت کاروں کی آمدن بھی بڑھی، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے کام عوام کی فلاح کےلیۓ کر کے اپ انکے لیۓ ہر دل عزیز بن گئے اور آپکی مقبولیت بڑھنے لگی، شیر شاہ کی یہ مقبولیت اسکی سوتیلی مان کو پسند نہی تھی اسنے ان کے خلاف سازشیں شروع کر دیں، وہ باپ کی بےبسی اور سازشوں سے تنگ آ کے اپنے سگے بھائی نظام کے پاسس آگرہ آ گئے.
امیر جمال خان نے فرید خان کو مشورہ دیا کہ وہ اور اسکا سوتیلا بھائی سلیمان جاگیر اپس میں بانٹ لیں، لیکن قانونی طور پر اس جاگیر کا مالک فرید ہی تھا. فرید نے امیر کے اس مشورے کو ماننے سے انکار کر دیا اور سوچ بچار کے بعد وہ صوبہ بہار آگئے اور وہاں آکر سلطان محمد کے یہاں ملازمت کی سلطان محمد “جہاں در خان توہانی” کے لقب سے جانا جاتا تھا. ایک دن سلطان محمد شکار کے لیۓ گیا، وہاں اس پر شیر نے حملہ کر دیا فرید خان نے سلطان کی جان شیر سے بچائی، سلطان نے اسکی بہادری دیکھ کر “شیر شاہ سوری” کا لقب دیا. شیر شاہ نے حالات کو سنبھالنے کے لیۓ اپنی جاگیروں پر واپس جانے کا فیصلہ کیا، جوں پور جا کہ اسنے نہ صرف اپنی جاگیریں سنبھالیں بلکہ ارد گرد کے بھی کچھ علاقوں پر قبضہ جما لیا. اسکی ذہانت، محنت اور بہادری کا چرچا سن کر ظہیر الدین بابر نے اسکو اپنے یہاں ملازمت پر رکھ لیا، لیکن جلد ہی ظہیر الدین بابر کو علم ہو گیا کہ شیر شاہ بہت خطرناک ہے اور وہ مغلوں کو ہندستان سے نکالنا چاہتا ہے، بابر نے شیر شاہ کے پیچھے اپنے جاسوس لگا دیئے، شیر شاہ کو جب پتا چلا تو وہ واپس اپنی جاگیر پر آگیا. لیکن جلد ہی اسکا دل پھر اکتا گیا اور وہ سلطان محمد کے پاس چلا گیا، اور سلطان نے اسکو اس کے عھدے پر پھر سے بھال کر دیا کیونکہ سلطان خود اپنے دشمنوں اور حاسدوں میں پھنسا ہوا تھا، لیکن کچھ عرصے کے بعد سلطان کی وفات ہو گئی. سلطان کے بعد اسکے بیٹے جلال خان کو تخت پر بٹھایا گیا، محمود لودھی کی بنگال میں حکومت تھی، اس نے بعض اختلاف کی وجہ سے بہار پر حملہ کر دیا، لیکن شیر شاہ نے اسے شکست دی، محمود لودھی نے شیر شاہ کو اپنی آن کا مسئلہ بنایا اور جلال خان کے ساتھ مل کر شیر شاہ کے خلاف سازش شروع کردیں۔ شیر شاہ نے ان کی سازشوں کو اپنے پیروں تلے روند کر بہارپرقبضہ کرلیا. وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور شیر شاہ سوری نے آہستہ آہستہ اپنی مملکت میں اضافہ شروع کردیا، بہت جلد ہی ہندو حکمران اور نام نہاد حکمرانوں کا قلع قمع کرکے ہندوستان میں ایک مضبوط اور مربوط اسلامی حکومت کا نظام قائم کردیا گیا۔
شیر شاہ سوری کا دور حکومت صرف پانچ سال۔ پندرہ سو انتالیس سے پندرہ سو پینتالیس تک رہا، اس نے عوامی بہبود کے لیے بڑے بڑے موثر کام سرانجام دیے. شیرشاہ سوری نے اپنے مختصر سے دور حکومت میں قیام امن، رعایا کی بھلائی، جرائم کا خاتمہ، سلطنت کا استحکام، تجارت میں ترقی، زراعت میں اضافہ، نظام مالیہ کا اجراءکیا۔ اس کے علاوہ شیر شاہ نے چار عظیم سڑکیں تعمیر کروائیں جن سے آج تک استفادہ حاصل کیا جارہا ہے، سونے پر سہاگہ یہ کہ شیر شاہ نے ان سڑکوں پرایک ہزار سات سو سرائیں تعمیر کروائیں۔ ان سراﺅں کی خصوصیات یہ تھیں کہ ہر سرائے میں ہندوﺅں اور مسلمانوں کے لیے رہائش اور خوراک کا انتظام الگ الگ ہوتا تھا، ہر سرائے کے ساتھ مسجد اور کنواں ہوتا تھا، شیر شاہ سوری بے تعصب حکمران تھا، ہندوﺅں کو ملازمتیں دے رکھی تھیں، انہیں پوری مذہبی آزادی حاصل تھی، ان کے دیوانی مقدمے ان کی اپنی روایات کے مطابق طے کیے جاتے تھے۔ شیر شاہ سوری کا قول تھا کہ: انصاف سب سے بڑا مذہبی فریضہ ہے۔ کالنجر کی مہم اس کی زندگی کی آخری مہم ثابت ہوئی، اس نے فوج کو گولہ بارود کا حکم دیا اور خود نگرانی کرنے لگا، ایک بارودی ہوائی بھٹی اور بارود خانہ جل گیا، جس سے شیر شاہ سوری شدید زخمی ہوا لیکن یہ مرد مجاہد اس وقت تک زندہ رہا جب تک اسے قلعہ کالنجر کی فتح کی خبر نہ مل گئی تھی۔ یہ بائیس مئی پندرہ سو پینتالیس کا دن تھا۔ شیر شاہ سوری کا مقبرہ آج بھی سہسرام میں فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ شیر شاہ کے بعد اس کا لڑکا بادشاہ بنا لیکن نہایت ظالم اور سخت گیر ہونے کی وجہ سے اپنی حکومت برقرار نہ رکھ سکا، اس کے بعد اور بادشاہ آئے لیکن کوئی بھی جم کر حکومت نہ کرسکا اور بالآخر صرف دس سال میں سوری حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔