برصغیر کے نامور شاعر ساحر لدھیانوی جن کی لکھی غزلیں اور نغمے آج تک ہندوستانی ہی نہیں پاکستانی عوام کی یادوں میں بھی زندہ ہیں بہت سحر انگیز شاعری کرتے تھے ۔ ان کے کلام کو سن کر لگتا تھا کہ سننے والا خود انکی جگہ پہ ہے ۔
ساحر لدھیانوی کی زندگی میں کئی حادثات و واقعات تھے جنہوں نے ان کے کلام کو پختہ اور سونے سے کندن بنا دیا ۔ ہر کلام کے پیچھے کوئی درد چھپا ہوتا تھا ۔ اسی طرح ایک مقبول نغمے کے پس پردہ انکے گمنام عشق کی کہانی ہے ۔ لتا منگیشکر سے عشق کی ناکام داستان کے بعد وہ بہت تنہا تھے ۔ اس اثنا میں انکو ایک اور گلوکارہ مدھیا ملہوترا سے عشق ہو گیا ۔ بہت چاہت اور محبت کے باوجود وہ انکی نہ ہو سکی ۔ جونہی اسکے والدین کو پتہ چلا انہوں نے اسکی شادی ایک اور جگہ طے کر دی ۔ خصوص انکی فرمائش پہ ساحر لدھیانوی صاحب انکی شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے گئے تو وہاں فی البدیع اپنی یہ نظم شرکا کو سنا ڈالی جس پہ مدھیا ملہوترا کے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے اور وہ کتنی دیر تک زاروقطار روتی رہی ۔
نظم کے الفاظ کچھ یوں ہیں :
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی