Qateel Shifai Writer

قتیل شفائی کی تصنیف “گھنگرو ٹوٹ گئے” سے ماخوذ

مشہور شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی

انڈیا کے اس ٹور میں لدھیانہ کے ایک مشاعرے میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ لدھیانہ ساحر کا گھر ہے اور ساحرلدھیانوی خود بھی اس مشاعرے میں موجود تھا ۔ ساحر کے بچپن کے دوست اور نئے جاننے والے بھی اس مشاعرے میں موجود تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ ساحر عوام کا محبوب شاعر تھا۔ ساحر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نوجوان نسل کا شاعر تھا لیکن اس سے بطور شاعر اس کی مقبولیت اور حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ اس عمر کے لوگ بھی تو ہمیشہ یہی رہیں گے۔ یہ ایک جملہ معترضہ ہے۔ اس وقت کے اس مشاعرے کی طرف لوٹتا ہوں۔

ہم مشاعرے سے پہلے ایک دوسرے کو مجاز کے لطیفے سنا رہے تھے۔ ایک مشاعرے کا لطیفہ یہ ہوا کہ کچھ عورتیں اور بچے بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ دوسرے لوگ بھی موجود تھے۔ مجاز کلام پڑھ رہے تھے تو اچانک ایک بچہ رونے لگا ۔ مجاز بڑے جملہ باز تھے انہوں نے فوراً مائیک سے کہا  “نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا” اس بات پر وہاں بڑا قہقہہ پڑا ۔ یہ لطیفہ ہو چکا تھا اور جب ہم مشاعرے میں پہنچے تو میرے ساتھ میری بیوی اور بیٹا تھے ۔ یہ اس وقت سامعین میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ میں جب کلام سنانے کیلئے سٹیج پر گیا تو نیچے سے میرے بیٹے نوید نے جس کی عمر کوئی چار سال تھی آواز دی ’’ابا جی ‘‘۔ اب بجائے اس کے کہ کوئی نقش فریادی والی بات کرے ‘ میں نے خود ہی ساحر کو مخاطب کر کے کہہ دیا، “نقش فریادی ہے میری شوخی تحریر کا”  لوگ سمجھ گئے اور بہت محفوظ ہوئے۔ سہارن پور میں ایک مشاعرہ ہوا تو لکڑی کا کام کرنے والی ایک فرم کے صاحبان اختیار میری شاعری کے دلدادہ تھے۔ اب بھی وہ لکڑی کی بنی ہوئی کوئی چیز تحفہ کے طور پر میرے لئے بھیج دیتے تھے۔ اس مشاعرہ میں شرکت کیلئے ہم گئے تو انہوں نے پوچھا کہ آپ ہمارے پاس آئیں گے ۔ میرے جواب دینے سے پہلے ہی یہاں پاکستان سے گئی ہوئی ایک شاعرہ بسمل صابری نے کہا کہ ہاں جی بالکل ہم آئیں گے۔ اب نہ میں اس شاعرہ کو کچھ کہہ سکا اور نہ ہی مدعو کرنے والے افراد کو۔ خیر وقت مقررہ پر میں نے دیکھا کہ وہ خاتون وہاں موجود نہیں تھیں۔ میں نے شکر ادا کیا اور حسب وعدہ خود اس فرم میں چلا گیا۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ خاتون پہلے ہی سے وہاں موجود تھیں اور اپنی پسند کی بہت سی چیزیں پہلے ہی ایک پارسل کی شکل میں پیک کروا چکی تھیں۔ میں گیا تو مجھے دیکھ کر ہنسنے لگیں۔ وہ صاحب مجھے کہنے لگے کہ آپ بھی کچھ چیزیں پسند کر لیجئے ۔ میں نے کہا کہ شاعرہ جو چیزیں پسند کر چکی ہیں وہی ہمارے لئے کافی ہیں اور ہم آپس میں بانٹ لیں گے۔ میں نے سوچا کہ اس خاتون کو تھوڑا سا نقصان پہنچایا جائے۔ چنانچہ وہاں آکر میں نے اس خاتون سے کہا کہ نکالو میرے حصے کی آدھی چیزیں۔ وہ ذرا کسمسائی لیکن میں نے کہا کہ تمہیں وہاں کس نے بلایا تھا اس لئے اب آدھی چیزیں نکالو۔

اس سال امرتسر میں بھی ایک مشاعرہ ہوا تھا۔ اس مشاعرے کے منتظمین نے مجھ سے کہا تھا کہ میں پاکستان سے جن شاعروں کو چاہوں بلوا لوں۔ انہوں نے بسمل صابری کو بلوانے کیلئے کہا تھا ۔ مشاعرے میں ہم نے شرکت کی تو سردار صاحبان و سکی لئے بیٹھے ہوئے تھے۔ جب لڑکی سٹیج پر آئی تو نعرے تو اسی وقت لگ گئے۔ اس کے بعد کلام سنا تو اس کی داد بھی اچھی تھی اس لئے دوبارہ سہ بارہ بھی انہیں سنا گیا۔ وہ مشاعرہ خیریت سے گزرا تو ہم آگئے۔  لطیفہ یہ رہا کہ کوئی تین ماہ بعد اسی انجمن کا ایک خط آیا اور انہوں نے پرانے مشاعرے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ہم اب ایک اور مشاعرہ کرنا چاہتے ہیں جس کے شعراء کی فہرست منسلک ہے۔ میں نے فہرست دیکھی تو اس میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی‘ قتیل شفائی اور دوسرے شعراء کے نام تھے اور آخر میں بسمل صابری کا نام لکھا ہوا تھا۔ ناموں کے آگے انجمن نے جو معاوضہ منظور کیا وہ درج تھا۔ فیض صاحب کا معاوضہ آٹھ سو روپے تھا اس طرح سب شاعروں کا بشمول میرے معاوضہ بھی اتنا ہی درج تھا لیکن آخر میں بسمل صابری کے نام کے آگے معاوضہ بارہ سو روپے لکھا ہو ا تھا ۔ ہم یہ خط پڑھ کر بہت ہنسے ۔ اس سے بڑا لطیفہ اور کیا ہو سکتا ہے۔

کسی زمانے میں جالندھر میں پاکستان کا ایک قونصل خانہ ہوتا تھا۔ چودہ اگست آیا تو انہوں نے سرکاری طور پر لکھا کہ پاکستان کے شعراء یہاں آئیں کیونکہ ہم قومی دن کے موقع پر ایک مشاعرہ منعقد کرنا چاہتے ہیں۔ لینا دینا ظاہر ہے کچھ بھی نہیں تھا۔ وہی فی سبیل اللہ والا معاملہ جو اکثر ہی شاعروں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اس قومی خدمت کے لئے لاہور سے شاعروں کی ایک بس بھری گئی۔ جس میں بیٹھ کر ہم سب جالندھر پاکستان قونصل خانے میں چلے گئے۔ وہاں قونصل خانے کے سربراہ عبدالرحمان صاحب نامی ایک صاحب تھے۔ جب ہم وہاں گئے تو ہمارے اس قافلے میں عبدالمجید سالک‘ صوفی تبسم ‘ احمد ندیم قاسمی ‘ سید عابد علی عابد ناصر کاظمی میں اور بہت سے دوسرے شعراء شامل تھے۔ یہ سب معزز اور گنے چنے ہوئے لوگ تھے اور گھروں سے ہی کھاتے پیتے تھے۔ ہمارے کھانے پینے کا انتظام انتہائی ناقص کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ جب ہم نے نہانے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے کہا کہ باہر کنویں پر جا کر نہا لیں۔ میں ان دنوں میں خاصا تیز ہوتا تھا میں نے کہا کہ کیوں غسل خانے کو کیا ہو گیا ہے ۔ تو کہنے لگے کہ وہاں صاحب کے ایک مہمان نہا رہے ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم صاحب کو یہاں بلا کر لاؤ۔ وہ کہنے لگا کہ صاحب تو اس وقت سو رہے ہیں۔ سالک صاحب بہت بردبار آدمی تھے۔ انہوں نے کہا کہ چلو یار چھوڑو۔ ہم تو قومی کام کیلئے یہاں آئے ہیں۔ اگر ان لوگوں کو احساس نہیں ہے تو چلو چھوڑو۔ یہ وہی زمانہ تھا جبکہ وسکی پی جاتی تھی۔ شاعر ہر مشاعرے میں پیتے تھے۔ وسکی کا انتظام وہاں پر ہمارے جالندھر کے دوستوں نے کیا تھا۔ سب شاعر حضرات وسکی پی رہے تھے۔ صرف سالک صاحب نہیں پی رہے تھے باقی جتنے شاعر وہاں پر موجود تھے سب پینے والے تھے۔ سالک صاحب وہاں بیٹھے شراب کے بارے میں لطیفے سنا رہے تھے۔ سب نے ان سے کہا کہ آپ لطیفہ وغیرہ بعد میں سنائیے ۔ پہلے آپ ہمارے ساتھ وسکی پیجئے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی شراب نہیں پی۔ ویسے تم لوگوں کے ساتھ بیٹھتا ہوں اور تمہیں بھی بنا کر دیتا ہوں۔ لیکن سب لوگ بضد رہے کہ آج تو آپ کو ہمارے ساتھ پینا ہی پڑے گی ورنہ ہم بھی نہیں پئیں گے۔ صوفی تبسم اور عابد علی عابد نے بھی ان سے کہا کہ پی بھی لو یار ۔ ہم سب نے انہیں اتنا مجبور کر دیا کہ انہوں نے بھی کوارٹر پیگ وسکی ڈال کر گلاس سوڈا واٹر سے بھر لیا۔ باقی سب لوگ تو تیز پیتے رہے لیکن یہ بھی تھوڑی تھوڑی کر کے پیتے رہے اور ساتھ ساتھ لطیفہ بھی سناتے رہے۔ ایسے وضعدار بزرگ آج کہاں ملیں گے۔ یعنی انہوں نے دوسروں کا دل رکھنے کیلئے وہ کام کر لیا جو انہوں نے زندگی بھر کبھی نہیں کیا تھا اور ظاہر ہے کہ یہ کام انہوں نے کراہت ہی سے کیا ہوتا۔ جب اٹھے تو یہ لطیفہ کیا کہ اپنے ساتھ والے آدمی کو ایک ہلکا سا تھپڑ مار کر کہنے لگے کہ میرے راستے سے ہٹ جاؤ۔ اب میں نشے میں آ گیا ہوں اور صوفی! اب تم بھی میرے سامنے نہ آنا کیونکہ میں نشے میں ہوں اور تمہیں بھی ماروں گا۔

error: Content is protected !!