افریقه پر رومیوں کی حکومت تھی، بادشاہ گریگوری کی بیٹی فلپانہ بہت بہادر اور دلیر لڑکی تھی. فلپانا میدان جنگ میں مردوں کے شانہ بشانہ لڑتی تھی. حضرت عثمان رضی الله تعالی عنہ کا دور خلافت تھا. مصر کے گورنر عبدالله بن ابی سرح تھے. مسلمانوں اور عیسائیوں میں زبردست جنگ جاری تھی. عیسائیوں کی فوج مسلمانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی مگر مسلمان اس بات کی پرواہ کئے بغیر بہت بہادری اور دلیری سے ان کا مقابلہ کر رہے تھے. ایک مدت تک جنگ کا کوئی فیصلہ نہ ہوا تو رومن بادشاہ نے اعلان کیا کہ جو بھی سپاہی مسلمانوں کے سپہ سالار ابن ابی سرح کا سر کاٹ کر لائے گا اسکو انعام و اکرام کے علاوہ اپنی بیٹی فلپانہ کی شادی بھی اسی سے کر دی جائے گی. بادشاہ کی یہ بات سن کر سپاہیوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ دیکھنے میں آیا بھلا کون فلپانا سے شادی کرنے کا خواہش مند نہ تھا. ابن ابی سرح نے سیدنا عثمان سے امداد طلب کی اور آپ نے عبدالله بن زبیر رضی الله تعالی عنہ کو ایک فوجی دستہ دے کر مسلمانوں کی مدد کے لئے روانہ کیا.
ادھر فلپانا سے شادی کے خواہشمند کٹ کٹ کر گر رہے تھے مگر ان کی کوشش میں کوئی کمی نظر نہیں آ رہی تھی یہ دیکھ کر مسلمان سپاہی گھبرا گئے اور ان میں سے چند افسروں نے بیٹھ کر یہ فیصلہ کیا کہ ابن ابی سرح میدان میں نہ جائیں. تاکہ ان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ابن ابی کو یہ پسند نہ تھا مگر سب کی خواہش پر وہ خاموش ہو گئے. جب عبداللہ بن زبیر کمک لے کر پہنچ گئے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران ہوۓ کہ سپاہی تو لڑ رہے ہیں مگر سردار خیمے میں آرام کر رہے ہیں انہوں نے ابن ابی سے کہا کہ ایک بہادر سپہ سالار کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خود تو بیٹھا رہے اور سپاہی لڑتے رہیں کیا آپ کو شہید کی موت پسند نہیں ہے؟ ابن ابی نے سارا واقعہ انہیں بتایا اور کہا کہ انھے بھی یہ سب پسند نہیں ہے مگر وہ سب کے کہنے پر مجبور ہو گئے تھے.
عبداللہ بن زبیر نے مسکرا کر فرمایا کہ آپ بھی یہ اعلان کر دیتے کہ جو گریگوری کا سر کاٹ کر لائے گا اس کی شادی فلپانا سے کر دی جائے گی، یہ اعلان ہو گیا. کمک آ جانے سے جنگ میں شدت آ گئی تھی آدھے دن تک میدان لاشوں سے اٹ گیا تھا- مسلمانوں میں عبداللہ بن زبیر کے حملہ بہت ہی خطرناک تھے. ان کے جرات مندانہ حملوں کو دیکھ کر فلپانا نے کئی مرتبہ ان پر حملہ کیا مگر انہوں نے ہر مرتبہ اس کا وار بچا کر اس پر حملے سے گریز کیا، وہ عورت پر ہاتھ اٹھانا نہیں چاہتے تھے. عبدللہ بن زبیر نے گریگوری کو للکارا کہ اب جنگ کا فیصلہ میرے اور تیرے درمیان ہوگا، گریگوری نے بڑی پھرتی سے عبداللہ بن زبیر پر وار کیا مگر انہوں نے خود کو اس کے وار سے بچایا اور اس پر اس زور کا وار کیا کہ وہ خون میں لت پت ان کے سامنے زمین پر پڑا تھا آپ نے اسکی گردن کاٹ کر نیزے پر آویزاں کر دی. اپنے بادشاہ کے سر کو کٹا دیکھ کر فوج کے حوصلے پست ہو گئے اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوۓ. سپاہیوں کے ساتھ فلپانا کو بھی گرفتار کر لیا گیا. اسلامی فوج کی خوشی دیدنی تھی. جب مال غنیمت تقسیم ہونے لگا تو عبداللہ بن زبیر وہاں موجود نہ تھے ابن ابی سرح نے انہیں بلوا بھیجا اور فرمایا کے اعلان کے مطابق فلپانا تمہاری ہے. لیکن انہوں نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ میں نے جس پاک جذبے کے تحت جہاد کیا میں انعام لے کر اسے آلودہ نہیں کرنا چاہتا آپ کو حق ہے کہ فلپانا کو آپ جس کو چاہے دے دیں میں اس حق سے دستبردار ہوں. فلپانا آپ کی بہادری اور شجاعت سے اس قدرمتاثرہوئی کہ اس نے کہا میں عبداللہ بن زبیر کے علاوہ کسی کو حق نہیں دیتی کہ وہ مجھے اپنے ساتھ رکھے اور میں دل سے اسلام قبول کرتی ہوں.