میرے لیے تم ایک شاہکار سے بہت بڑھ کر ہو اگر سمجھ پاؤ تو – یاد رکھنا اس کیفیت کے پس منظر میں میں کسی خواہشِ نفسانی کا کوئی عمل دخل نہیں – اسکی حقیقت تو شاید تم کبھی سمجھ نہ سکو مگر ایک خدا ہے جو میرے اس جذبے کا علم رکھتا ہے، ایک میں اور ایک میرا خدا –
تمہارا تصور فطرت کے مظاہر کی مانند واضح، روشن، اجلا، نکھرا اور حسن و سادگی کے امتزاج کا اعلیٰ ترین پیکر ہے جو شاید ہی کبھی کسی اور وجود میں ظاہر ہو سکے – کبھی شام، جب دن ڈھل جائے، بس پھر کیا ہے، تمہاری محبت ایک حصار کھینچ لیتی ہے اور میں بس اسی کی پناہ میں آ جاتا ہوں اور پھر دنیا و مافیہا سے ماورا – یہ حصار اتنا مضبوط اور مستحکم ہے کہ چاہ کر بھی اس سء نکلنے کی طاقت نہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس سے نکلنے کی چاہ بھی نہیں –
پہلا دن تھا اور اتنے برس بعد آج کا دن، کہ میری کیفیت من و عن ویسی ہی ہے جو پہلے دن تم کو دیکھنے کے بعد تھی – کبھی تخیل کے سفر پہ نکلوں تو خیال آتا ہے کہ صرف تم. ہی کیوں؟ کیا خدا نے اور کوئی بھی ایسی شخصیت نہیں بنائ جسکو دیکھ کر تم کو بھول سکوں – یہ اس نے تم پہ ہی مہربانی کی یا پھر مجھ پر انعام؟
گفتگو کی خوبصورتی، آواز کی کھنکھناہٹ شخصیت کا جاذب نظر ہونا، اور بے پناہ حسن کے ساتھ ساتھ بلا کی معصومیت اور سادگی، یہ سب چیزیں مجھے کہاں لے جاتی ہیں، کچھ پتہ نہیں رہتا پھر، یہاں تک کہ اپنا بھی – کہوں گا تو بس اتنا کہ ان سب خصوصیات کے ساتھ فطرت کے تمام مظاہر کو مات دے چکی ہو –
کون سمجھ سکتا ہے کہ میں کیا سمجھتا ہوں تمہیں،. بس ایک اللہ کی ذات اور پھر اس کے بعد تمہاری شخصیت کی کاملیت کے علاوہ میری چشمِ دید دنیا کے باقی نظاروں سے قاصر ہے-
شاید تم نہ سمجھ سکو ٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
ؔشبیرحسین