Urdu Literature

مشتاق احمد یوسفی صاحب کا انتقال پر ملال

Mushtaq Ahmed Yousfi

20 جون 2018 کو اردو ادب کا ایک بہت بڑا اور اہم باب اختتام پذیر ہوا ۔ مشتاق یوسفی صاحب کے انتقال کی خبر نے ادب سے محبت رکھنے والے ہر شخص کو اشکبار کر دیا ۔ یوسفی صاحب طویل عرصے سے شدید علالت کا شکار تھے ۔موصوف کی عمر 95 برس تھی ۔ وہ 4 اگست 1923 کو ٹانک ضلع راجستھان میں پیدا ہوے ۔ تقسیم ہند کے بعد انھوں نے کراچی 1956 میں ہجرت کر لی ۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک بینکر تھے ۔ انکوحکومت پاکستان کی طرف سے 1999 میں ستارہ امتیاز عطا کیا گیا ۔ بعد ازاں آپکو ریاست کے سب سے بڑے سویلئین اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا گیا ۔

مشتاق یوسفی
آپکی مشہور ترین تصنیفات میں چراغ تلے تھی ۔ اس نے یوسفی صاحب کو بہت عزت دی اور ایک ایسے مزاح نگار کی شناخت بخشی جس کو صرف شائستہ طنز و مزاح کے علاوہ زبان کی خوبصورتی پہ بھی عبور تھا ۔ ان کو ہمیشہ یہ پتہ تھا کہ طنز و مزاح اور جگت کو کب کہاں کیسے خوبصورتی سے بیان کرنا ہے ۔ انکی دیگر تصنیفات میں خام بدہن بہت مقبول ہے جو 1970 میں شائع ہوئی ۔ شہرت عام کی منزل کو چھونے والی اگلی تصنیف کا نام سر گزشت ہے جو 1976 میں منظر عام پہ آئی ۔آب گم انکی آخری تصنیف تھی جو 1990 میں انہوں نے لکھی ۔ ان کے اس تمام کام نے انکو ایک بہترین مزاح نگار کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ اردو ادب کو شاہکار عطا کئے ۔
یوسفی صاحب کی اس صفت کو اردو ادب میں نمایاں مقام حاصل رہے گا کہ انہوں نے ادب میں مزاح کو نہ صرف خوبصورتی سے پیش کیا بلکہ روایتی طریقوں سے ہٹ کر کام کیا ۔ اردو ادب میں انکی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائگا

error: Content is protected !!