خلافت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات حسرت آیات کے بعد مہاجرین و انصار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ یہ اختلاف کا واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ کے مقام پر رونما ہوا۔ اس مجلس میں جلدی سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے۔ جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں مہاجرین و انصار کی فضیلت کو بیان کیا اور آخر میں فرمایا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ : ((الائمۃ من قریش)) ” خلیفہ قریش سے ہو گا۔ “
(مسند احمد رحمہ اللہ ، تاریخ الخلفاءسیوطی ص : 14 )
چنانچہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت میں کوئی شک نہیں ہے فوراً اختلاف ختم ہو گیا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہیں ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ لیکن تمام مہاجرین و انصار نے بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی۔ آپ بالاتفاق خلیفہ منتخب ہو گئے
(تاریخ اسلام ص : 328 ج : 1 ، تاریخ الخلفا ص : 52 ، اسد الغابہ ص : 222 ج : 3 ، البدایہ و النہایہ ص : 248 ج : 5 )
خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ اول نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں مہاجرین و انصار رضوان اللہ علیھم اجمعین سے عام مشورہ لیا کہ میں اپنے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کرنا چاہتا ہوں ” افترضون “ کیا تم پسند کرتے ہو؟ ” فقال الناس قد رضینا “ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا ہم راضی ہیں۔ خصوصاً جلیل القدر صحابہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا۔ ہر ایک نے پوری آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ببانگ دہل کہا
((لا نرضیٰ الا ان یکون عمر بن الخطاب))
” ہم عمر بن خطاب کی خلافت کے سوا کسی کو پسند نہیں کریں گے۔ “
عام و خاص کے مشورہ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کر دیا۔
](اسد الغابہ ص : 70 ج : 4 ، تاریخ الخلفاءص : 102 ، تاریخ اسلام ص : 269 ج : 1 ، تاریخ طبری ص : 51 ج : 4 )
خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جب مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے نصرانی غلام ابولولو فیروز نامی شخص نے نماز فجر کی حالت میں خنجر مارا جس سے آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہو گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت سے پہلے خلافت کے لئے چھ آدمیوں کے نام لئے اور فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے راضی گئے ہیں۔
1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ
2۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
3۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ
4۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ
5۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ
6۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
ان چھ میں سے میرے بعد جس کو چاہو خلیفہ بنا لو۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان چھ کا خصوصی اجلاس ہوا۔ چار خلافت سے دستبردار ہو گئے۔ صرف دو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلافت کے امیدوار باقی رہے۔ ان دونوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو اپنا جج اور فیصل تسلیم کر لیا۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے صحابہ سے مشورہ لے کر کثرت رائے سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجمع عام میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی۔ بالاتفاق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ ثالث منتخب کر لیا گیا۔
](تاریخ اسلام ص : 321 ج : 1 ، اسد الغابہ ص : 75 ج : 4 ، تاریخ الخلفاءص : 119 )
امام ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
((ازدحم الناس یبایعون عثمان حتیٰ غشوہ تحت المنیر))
(البدایہ والنہایہ ص : 146 ج : 7 )
” بیعت کے موقع پر لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اس قدر ہجوم کیا یہاں تک کہ ان کو منبر کے پاس ڈھانپ لیا۔
خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مدینہ منورہ میں بلوائیوں و باغیوں کا زیادہ زور تھا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر زور دیا کہ وہ خلافت کی بیعت لیں لیکن انہوں نے فرمایا کہ جب تک اہل مدینہ بیعت نہ کریں میں بیعت نہیں لوں گا۔ چنانچہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت عام ہوئی اور خلیفہ چہارم منتخب ہو گئے۔
(تاریخ الخلفاءص : 133 ، تاریخ اسلام ص : 381 ج : 1 ، اسد الغابہ ، ص : 310 ج : 4 ، تاریخ طبری ص : 152 ج : 5 )
خلافت حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ پر عبدالرحمن بن ملجم خارجی نے کوفہ کی جامع مسجد میں نماز فجر کے وقت حملہ کیا تو آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوفیوں نے دریافت کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی جائے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اپنے حال میں مشغول ہوں تم جس کو پسند کرتے ہو اس کے ہاتھ پر بیعت کر لو۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد کوفیوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ منتخب کر لیا۔
تاریخ اسلام ص 455 ج : 1 ، اسد الغابہ ص : 14 ج : 2 ، تاریخ الخلفاءص : 146 )
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ پر خلافت راشدہ کا تیس(30) سالہ دور ختم ہو جاتا ہے۔
مدت خلافت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
((خلافتہ سنتین واربعۃ اشھر)) (دو سال چار ماہ)
مدت خلافت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
((خلافتہ عشر سنین ونصفا)) (دس سال چھ ماہ)
مدت خلافت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
((خلافتہ اثنی عشر سنۃ)) (بارہ سال)
مدت خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ
((خلافتہ اربع سنین وتسعۃ اشھر وایاما)) (چار سال نوماہ اور کچھ دن)
مدت خلافت حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ
((فاقام فیھا ستۃ اشھر وایاما)) (چھ ماہ اور کچھ دن)
خلافت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ 40ھ میں کوفیوں سے تنگ آ کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لیتے ہیں ، جس بناءپر اس سال کو امت مسلمہ کے لئے صلح کا سال قرار دیاجاتا ہے۔
اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی پورا ہوتا ہے ” کہ میرا بیٹا (حسن رضی اللہ عنہ ) دو مسلمان جماعتوں میں صلح کرائے گا۔ “ چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے صلح کے لئے ایک سادہ کاغذ پر اپنی مہر اور دستخط کر کے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ آپ نے تمام شرائط کو منظور کر لیا۔ اس کے ساتھ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور آپ کے تمام ساتھیوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ جس سے پورے ملک میں امن و امان قائم ہو گیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے 40 ھ سے لے کر 60 ھ تک تقریباً بیس سال حکومت کی۔
(تاریخ اسلام ص : 458 ج : 1 ، تاریخ الخلفاءص : 150 )
چنانچہ اسد الغابہ میں ہے :
((خلیفۃ عشرین سنۃ وامیرا عشرین سنۃ))
” حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور خلافت بیس سال ہے اور گورنری کا دور بھی بیس سال ہے۔ “
](اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ص : 387 ج : 4
یزید کا دور حکومت
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے گورنر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر اپنے بیٹے یزید کو اپنی زندگی میں خلیفہ نامزد کیا اور اس کے لئے بیعت خلافت لی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 60 ھ میں یزید کے ہاتھ پر شامیوں نے اہل مدینہ اور دوسرے صوبہ جات نے یزید کی بیعت خلافت کی۔ یزید کے دور خلافت میں عظیم سانحہ کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا رونما ہوا۔
(تاریخ الخلفاءص : 158 ، تاریخ اسلام ص : 27 ج : 2 )
روایت واقعہ کربلا
واقعہ کربلا کے راوی ابومحنف اور ہشام بن محمد سائب بھی ہیں۔ لیکن وہ قابل اعتبار نہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ منہاج السنہ میں لکھتے ہیں :
((ابومحنف وھشام بن محمد بن سائب وامثالھما من المعروفین بالکذب عند اھل العلم))
(مفتاح السنہ ص : 13 ج : 1 ، میزان الاعتدال ذہبی ص : 550 ج : 3 )
ابومحنف اور ہشام اور ان جیسے راوی اہل علم کے نزدیک جھوٹے ہیں۔ ابومحنف اپنی کتاب ” مقتل حسین رضی اللہ عنہ ‘ میں ایسی عجیب و غریب روایات بیان کرتے ہیں جن کو عقل بھی تسلیم نہیں کرتی۔
مثلاً لکھتے ہیں :
” کہ جب امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو ان کا گھوڑا ہنہنانے لگا وہ میدان کربلا میں مقتولین کی لاشوں کے پاس سے گزرتا ہوا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی لاش کے پاس آ کر ٹھہر گیا۔ اس نے اپنی پیشانی خون میں ڈبو دی۔ وہ اگلے پاؤں سے زمین پر ٹپکنے لگا اور اس قدر زور سے ہنہنانے لگا کہ اس کی ہنہناہٹ سے میدان کربلا گونج اٹھا۔ ابن سعد کی نظر جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر پڑی تو اس نے کہا خدا کی مار ہو تم پر اسے پکڑ کر میرے پاس لاؤ ، یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ گھوڑوں میں سے ہے۔ لشکریوں نے اس کا تعاقب کیا ، جب گھوڑے نے دیکھا کہ لوگ اسے پکڑنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے پاؤں زمین پر ٹپکنے لگا اور اپنی مدافعت کرنے لگا حتیٰ کہ اس نے بہت سے آدمیوں کو ہلاک کر دیا اور کئی شاہسواروں کو گھوڑوں سے گرا دیا۔ مگر لشکری اس پر قابو نہ پا سکے۔ “
(مقتل الحسین رضی اللہ عنہ ص : 94 )
دوسری جگہ لکھتا ہے کہ
حضرت حسین رضی اللہ عنہ جس روز شہید ہوئے آسمان سے خون کی بارش ہوئی۔
(مقتل الحسین رضی اللہ عنہ ص : 119 )
مذکورہ بالا نمونہ سے پتہ چلتا ہے کہ ابومحنف راوی اپنی طرف سے باتیں بنا لیتا ہے۔ لہٰذا قابل اعتبار راوی نہیں ہے۔
واقعہ کربلا کا راوی عمار الدھنی
واقعہ کربلا کا راوی عمار الدھنی قابل اعتبار ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
” صدوق یتشیع “ عمار الدھنی بہت سچا راوی ہے اور شیعہ عقیدہ رکھتا ہے۔
(تقریب التہذیب ص : 152 )
صاحب تنقیح المقال بھی لکھتے ہیں :
” کان شیعا ثقۃ “ عمار الدھنی شیعہ عقیدہ رکھتا ہے لیکن قابل اعتبار تھا۔
(تنقیح المقال ص : 317 ج : 2 )
عمار الدھنی راوی شیعہ و سنی دونوں کے نزدیک قابل اعتبار ہے۔ عمار الدھنی کی روایت تاریخ طبری ، تہذیب التہذیب ، الاصابہ میں موجود ہے۔
(الاصابہ ص : 17 ج : 2 )
حضرت ابوجعفر محمد باقر رحمہ اللہ کا بیان
عمار الدھنی روایت کرتے ہیں کہ اس نے محمد بن علی بن حسین سے عرض کیا یعنی امام محمد باقر رحمہ اللہ سے کہ مجھ سے واقعہ کربلا ایسے انداز سے بیان کریں گویا آپ خود وہاں موجود تھے اور وہ سامنے ہو رہا ہے۔ اس پر حضرت امام محمدباقر رحمہ اللہ نے واقعہ کربلا اس طرح بیان کیا۔
بیعت یزید
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت ولید بن عتبہ بن ابی سفیان حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھتیجا اور یزید کا چچیرا بھائی مدینہ منورہ کا گورنر تھا۔ اس کو یزید نے حکم بھیجا کہ وہ میرے لئے بیعت لیں۔ جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا تو امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے سوچنے کی مہلت دیں اور نرمی اختیار کریں۔ چنانچہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مہلت لے کر مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔
کوفیوں کے خط
جب آپ مکہ معظمہ پہنچ گئے تو کوفیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے قاصد و پیغامات بھیجے اور عرض کی کہ آپ رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لے آئیں ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں ، ہم لوگوں نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے ، اس کے گورنر کے پیچھے جمعہ پڑھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت کوفہ کا گورنر نعمان بن بشیر تھا۔ جب کوفیوں کی طرف سے اس قسم کے پیغامات آئے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تحقیق احوال کے لئے پروگرام بنایا۔
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوفہ میں
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ روانہ کیا تا کہ وہ وہاں کی صورت حال کا اچھی طرح جائزہ لے۔ پروگرام کے مطابق مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ مکہ سے پہلے مدینہ منورہ گئے وہاں سے راستہ کی رہنمائی کے لئے دو آدمی ساتھ لئے اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ جس راستہ سے گئے وہ انتہائی خطرناک تھا۔ ریگستانی علاقہ سے گزرتے ہوئے ایک راہبر پیاس کی وجہ سے ہلاک ہو گیا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ مجھے اس خدمت سے سبکدوش کر دیا جائے لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کی معذرت قبول نہ کی اور حکم دیا کہ کوفہ ضرور جاؤ اس حکم کی وجہ سے امام مسلم بن عقل رضی اللہ عنہ کوفہ گئے اور وہاں جا کر عوسجہ کوفی کے پاس ٹھہرے۔
کوفیوں کی بیعت
کوفیوں کو جب امام مسلم رضی اللہ عنہ کی آمد کی خبر ہوئی تو خفیہ طور پر ان کے پاس پہنچے اور بارہ ہزار کوفیوں نے ان کے ہاتھ پر امام حسین رضی اللہ عنہ کے لئے بیعت کی۔
گورنر کوفہ نعمان بن بشیر کی معزولی
امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر جب بارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کی تو یزید کے ایک بہی خواہ عبداللہ بن مسلم حضرمی نے نعمان بن بشیر کو کہا کہ دیکھو شہر کی صورتحال کیا ہے یا تو کوفہ والے آپ کو کمزور سمجھتے ہیں یا آپ واقعتا کمزور ہیں۔
حضرت نعمان کا جواب
میری ایسی کمزوری جو اطاعت الٰہی میں ہو اس طاقت سے بہتر ہے جو خدا کی نافرمانی میں ہو۔ جس کام پر اللہ نے پردہ ڈالا اس کو کیوں ظاہر کروں۔
اس کے بعد عبداللہ بن مسلم حضرمی نے اس کی شکایت یزید کے پاس لکھ کر بھیج دی۔ یزید نے اپنے ایک آزاد کردہ غلام سرحون سے مشورہ کیا اس نے کہا کہ اگر آپ کے باپ معاویہ رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو آپ اس کے مشورہ پر عمل کرتے۔ یزید نے کہا کہ ضرور عمل کرتا۔ سرحون نے مشورہ دیا فوری طور پر عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کر دو۔ حالانکہ صورتحال یہ تھی کہ یزید ان دنوں ابن زیاد کو بصرہ کی گورنری سے معزول کرنا چاہتا تھا۔ مگر سرحون کا مشورہ قبول کرتے ہوئے نعمان بن بشیر کو معزول کر دیا اور ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنا دیا اور کہا کہ کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو تلاش کرو اگر مل جائے تو اسے قتل کر دو۔
عبیداللہ بن زیاد کوفے کا نیا گورنر
ابن زیاد بصرہ کے چند ساتھیوں کے ہمراہ اس حالت میں کوفہ آیا کہ اس نے ڈھاٹا باندھ رکھا تھا وہ جس مجلس سے بھی گزرتا سلام کرتا۔ لوگ جواب میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سمجھ کر ” وعلیک یا ابن رسول اللہ “ (اے رسول کے بیٹے آپ پر بھی سلام ہو) جواب دیتے۔
کوفی سمجھتے تھے کہ حسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں۔ یہاں تک کہ ابن زیاد قصر امارت میں پہنچ گیا۔
مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی تلاش
ابن زیاد نے کوفہ پہنچ کر اپنے غلام کو تین ہزار درہم دئیے اور کہا جاؤ اس شخص کا پتہ لگاؤ جو کہ کوفہ والوں سے بیعت لیتا ہے۔ لیکن اپنے آپ کو ظاہر کرو کہ میں حمص کا باشندہ ہوں اور بیعت کرنے آیا ہوں اور یہ رقم پیش خدمت ہے۔ آپ اپنے مشن میں صرف کر سکیں۔ غلام اس حیلہ سے یہ اس شخص تک پہنچ گیا جو بیعت کا اہتمام کرتا تھا۔ جب اس نے رقم پیش کی اور بیعت کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس آدمی نے خوش ہو کہا کہ تمہیں ہدایت کا راستہ نصیب ہوا ہے۔ لیکن افسوس کہ ابھی تک ہمارا کام پختہ نہیں ہوا۔ تاہم وہ اس غلام کو مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔ امام مسلم رضی اللہ عنہ نے اس سے بیعت لی اور رقم بھی قبول کر لی۔ اب وہ یہاں سے نکلا اور سیدھا ابن زیاد کے پاس پہنچا اور سب کچھ اس کو بتلا دیا۔ ادھر حضرت مسلم رضی اللہ عنہ ابن زیاد کی کوفہ آمد سے عوسجہ کا گھر چھوڑ کر ہانی بن عروہ کے گھر منتقل ہو چکے تھے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیج دیا تھا کہ بارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کر لی ہے۔ آپ کوفہ تشریف لے آئیں۔
ھانی بن عروہ کی گرفتاری
جب ابن زیاد کو پتہ چل گیا کہ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ہانی بن عروہ کے گھر ہے۔ اس نے کہا کیا بات ہے کہ ہانی مجھے ملنے نہیں آئے۔ محمد بن اشعث چند ساتھیوں کے ساتھ ھانی کے دروازہ پر آئے ، ہانی اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ” گورنر نے آپ کو یاد کیا ہے لہٰذا آپ کو گورنر کے پاس جانا چاہئے۔ “ چنانچہ ان کے زور پر ھانی ابن زیاد کے پاس پہنچے۔
اتفاق سے اس وقت قاضی شریح بھی ابن زیاد کے پاس موجود تھے۔ ان سے مخاطب ہو کر کہا دیکھو اس احمق کی قضاءہمارے پاس لے آئی ہے۔ ہانی نے سلام کہا۔ ابن زیاد بولا : مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کہاں ہے؟
ہانی بن عروہ نے کہا : مجھے علم نہیں ہے۔
اس پر ابن زیاد نے تین ہزار درہم والے غلام کو سامنے کر دیا۔ ھانی بالکل لاجواب ہو گیا اور کہا : میں نے ان کو بلایا نہیں وہ خود بخود میرے گھر میں آ گئے ہیں ابن زیاد نے کہا : کہ اس کو حاضر کرو۔ اس پر ھانی پس و پیش کیا۔ جس پر ابن زیاد نے اپنے قریب کر کے اس زور سے چھڑی ماری جس سے ان کی بھنویں پھٹ گئیں اور پھر تلوار سے وار کرنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ ابن زیاد نے کہا کہ : اب تیرا خون حلال ہے۔ اور اس کو قصر امارت کے ایک حصہ میں قید کر دیا۔
اس واقعہ کی اطلاع پرھانی کے قبیلہ نے قصر امارت پر حملہ کر دیا۔ ابن زیاد نے قاضی شریح کے ذریعہ ان کو پیغام بھیجا کہ ہانی کو مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کا پتہ و تحقیق کرنے کے لئے روکا ہے خطرے کی کوئی بات نہیں اور قاضی شریح کے ساتھ بھی ایک غلام کو بھیج دیا کہ دیکھو یہ لوگوں کو کیا کہتے ہیں قاضی شریح لوگوں کی طرف جاتے ہوئے ھانی کے پاس سے گزرے تو اس نے کہا : کہ میرے بارے میں اللہ سے ڈرنا۔ ابن زیاد میرے قتل کے درپے ہے تاہم قاضی شریح نے ابن زیاد کی بات کہہ کر مطمئن کر دیا۔ یہ بات سن کر لوگ مطمئن ہو گئے۔
مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کا خروج
مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو جب اس ہنگامے کا علم ہوا تو خروج کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ چار ہزار لوگ ایک روایت کے مطابق چالیس ہزار آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ ان کو جنگی طریقہ سے ترتیب دے کر قصر امارت کی طرف روانہ کر دیا۔ ابن زیاد کو اطلاع ہوئی تو اس نے سردار ان کوفہ کو بلایا جب لشکر قصر امارت تک پہنچ گیا تو سرداران کوفہ نے اپنے اپنے قبیلہ کو سمجھایا تو وہ آہستہ آہستہ کھسکنا شروع ہو گئے۔ رات کے اندھیرے تک کوئی باقی نہ رہا۔
کوفیوں کی غداری اور امام مسلم رضی اللہ عنہ کی شہادت
حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا سب نے دھوکہ دیا ہے اور تنہا رہ گئے ہیں تو راستہ پر چل پڑے ایک مکان پر پہنچے اندر سے ایک خاتون نکلی۔ آپ نے پانی مانگا اس عورت نے پانی پلا دیا اور واپس اندر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر باہر آئی۔ آپ کو دروازہ پر دیکھ کر کہا کہ اے اللہ کے بندے تیرا اس طرح بیٹھنا مشکوک ہے۔ یہاں سے چلے جاؤ۔ آپ نے کہا میں مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ہوں تم مجھے پناہ دو گی؟ اس نے کہا آ جائیے۔ آپ اندر چلے گئے۔ جب اس عورت کے لڑکے محمد بن اشعث کو پتہ چلا کہ حضرت مسلم بن عقیل رحمہ اللہ ان کے گھر ہیں تو اس نے فورا ابن زیاد کو اطلاع کر دی۔ ابن زیاد نے اس کے ہمراہ پولیس روانہ کر دی۔ پولیس نے جا کر مکان کا محاصرہ کر لیا۔ مسلم اطلاع ملتے ہی تلوار سونت کر باہر نکل آئے مقابلہ کا ارادہ کیا ، لیکن محمد بن اشعث نے روکا اور حفاظت کی ذمہ داری اٹھالی۔ حضرت مسلم کو پکڑ کر ابن زیاد کے پاس لے گئے۔ چنانچہ ابن زیاد کے حکم سے قصر امارت کی چھت پر لے جا کر مسلم کو قتل کر دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اور ان کی لاش بازار میں لوگوں کے سامنے پھینک دی اور ہانی بن عروہ کو کوڑا کرکٹ کی جگہ گھسیٹتے ہوئے سولی پر لٹکا دیا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مکہ سے کوفہ کی طرف روانگی
حضرت مسلم کا خط امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا کہ بارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کر لی ہے لہٰذا آپ جلد کوفہ پہنچ جائیں۔ امام حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ قادسیہ سے تین میل کے فاصلے پر تھے کہ حربن یزید تمیمی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے سے ملا اس نے کہا کہاں جا رہے ہو؟ آپ نے فرمایا کوفہ…. اس نے کہا وہاں کسی خیر کی توقع نہیں ہے۔ آپ کو یہاں سے واپس ہو جانا چاہیے ۔ پھر اس نے کوفیوں کی بے وفائی اور حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ سنایا۔ سارا واقعہ سن کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واپسی کا ارادہ کر لیا۔ لیکن مسلم رضی اللہ عنہ کے بھائیوں نے کہا ہم بدلہ لیں گے یا شہید ہو جائیں گے۔ اس پر امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہارے بغیر زندگی کا کوئی لطف نہیں ہے۔ اب سب کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے جب آپ کو ابن زیاد کی فوج کا ہر اول دستہ نظر آیا تو آپ نے کربلا کا رخ کر لیا۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کربلا آمد
جب آپ کربلا میں پہنچے خیمے نصب کر لئے۔ اس وقت آپ کے ساتھ پینتالیس سوار اور سو (100) کے قریب پیدل تھے۔ اس وقت ابن زیاد نے عمر بن سعد کو بلایا کہ آپ حسین رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں میری مدد کریں۔ اس نے معذرت کی لیکن ابن زیاد نہ مانا۔ اس پر عمر بن سعد نے ایک رات سوچنے کی مہلت لی۔ عمر بن سعد نے سوچنے کے بعد آمادگی کا اظہار کیا۔ عمر بن سعد کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی معقول تجویز
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تین باتوں میں سے ایک مان لو۔
1۔ مجھے کسی اسلامی سرحد پر جانے دو۔
2۔ مجھے موقع دو کہ میں براہ راست یزید کے پاس پہنچ جاؤں۔
3۔ جہاں سے آیا ہوں وہاں واپس چلا جاؤں۔
ابن سعد نے تجویز قبول کر کے ابن زیاد کے پاس بھیج دی اس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بس ایک بات کی کہ حسین رضی اللہ عنہ بیعت کریں۔ عمر بن سعد نے ہر بات امام حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچا دی۔ انہوں نے فرمایا ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس پر لڑائی چھڑ گئی۔ آپ کے سب ساتھی مظلومانہ شہید ہو گئے۔ دس سے زائد جوان گھر کے تھے۔ اسی اثناءمیں ایک تیر آیا جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بچے پر لگا جو گود میں تھا۔ اس سے خون کو صاف کرتے ہوئے فرمایا! اے اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما جنہوں نے پہلے بلایا اب ہمیں قتل کر رہے ہیں۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خود تلوار ہاتھ میں لی اور مردانہ وار مقابلہ کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔
اور جس شخص کے ہاتھ سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے وہ قبیلہ مذحج کا آدمی تھا۔ اگرچہ اس کے بارے میں اور بھی اقوال ہیں۔ حج ھانی بن عروہ کا وہی قبیلہ جس نے قصر امارت پر چڑھائی کر دی۔ یہ شخص آپ کا سر تن سے جدا کر کے ابن زیاد کے پاس لے کر گیا۔ اس نے سر مبارک یزید کے پاس بھیج دیا۔ ادھر عمر بن سعد بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو لے کر ابن زیاد کے پاس پہنچ گیا۔ ان کا صرف ایک لڑکا علی بن حسین رضی اللہ عنہ زین العابدین بچا تھا۔ جو اس روایت کے راوی ابو جعفر باقر کے والد تھے۔
(الاصابہ ص : 17 ج2 )
تاریخ طبری کی روایت میں ہے کہ سنان بن انس نخعی نے شہید کیا اور خولی الاصبحی نے سرکاٹا۔
(تاریخ طبری ص246 ج : 14 )
اور وہ یہ شعر پڑھتا تھا :
اوقر رکابی فضۃ وذھبا
قد قتلت الملک المحجبا
قتلت خیر الناس اما وابا
وخیرھم اذ ینتسبون نسبا
میرے اونٹ سونے اور چاندی سے لادو
میں نے ایسے بادشاہ کو قتل کیا ہے
جس تک رسائی مشکل ہے ،
میں نے ایسے انسان کو مارا جس کے ماں باپ سب سے افضل ہیں
اور نسب کے اعتبار سے بہتر ہے۔
خواتین و بچے یزید کے دربار میں
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بچے ، افراد خانہ یزید کے دربار میں پہنچے تو درباریوں نے فتح کی مبارکباد دی۔ دربار میں سے ایک شخص نے جرات کر کے ایک لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ امیر المومنین یہ مجھے دے دو یہ سن کر زینب بن علی رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم یہ نہیں ہو سکتا کہ بجز اس کے یزید دین الٰہی سے نکل جائے۔ جب دوبارہ اس شخص نے کہا تو یزید نے اس کو ڈانٹا اور ان سب کو اپنے محل میں بھیج دیا۔
اھل بیت کی مدینہ روانگی
یزید نے سب کو تیار کرا کر مدینہ روانہ کر دیا۔ جب یہ مظلوم قافلہ مدینہ پہنچا تو خاندان عبدالمطلب کی ایک خاتون روتی ہوئی آئی اور یہ اشعار پڑھتی تھی۔
ماذا تقولون ان قال النبی لکم
ماذا فعلتم وانتم اٰخر الامم
بعترتی و باھلی بعد مفتقدی
منھم اساری ومنھم ضرجوا بدم
ماکان ھذا جزائی اذ نصحت لکم
ان تخلفونی بسوءفی ذوی رحم
(تاریخ طبری ص : 257 ج : 4 )
اگر پیغمبر علیہ السلام نے پوچھا تو کیا جواب دو گے کہ تم آخری امت ہو کر میری وفات کے بعد میرے گھرانے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ ان میں کچھ قیدی ہیں اور کچھ خون میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ میں زندگی بھر جو تمہیں نصیحت کرتا رہا تو اس کی یہ جزا نہ تھی کہ تم میرے رشتہ داروں سے ایسا سلوک کرتے۔
نوٹ :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عمار الدھنی کی یہ روایت الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں نقل کرنے بعد لکھتے ہیں :
قد صنف جماعۃ من القدماءفی مقتل الحسین تصانیف فیھا الغث والسمین والصحیح والسقیم فی ھذہ القصۃ التی سقتھا غنی
(الاصابہ ص : 17 ج : 2 )
متقدمین نے شہادت حسین رضی اللہ عنہ پر بہت کتابیں لکھی ہیں جس میں رطب و یابس بھر دیا ہے۔ لیکن یہ روایت جو میں نے بیان کی ہے تمام تصانیف سے بے نیاز کر دیتی ہے۔
محرم الحرام میں تمام مسلمانوں کو اخوت و بھائی چارہ کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور ملک و ملت کی حفاظت و بقا اور قیام امن کے لئے تقریر و تحریر میں تحقیقی و علمی ، مثبت اور مہذب انداز اختیار کرنا چاہئے۔
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
اقبال رحمہ اللہ
شیخ الحدیث مولانا محمد اعظم حفظ اللہ
ہفت روزہ اہلحدیث