اُس نے یوں حالِ دل بیاں کیا
گویا محبت کی بات کی ہو‛
وہ کم گو‛ خود سے پیار کرنے والی
وہ دن میں بھی چاند سی
وہ ایک لڑکی۔۔۔
بُہت وقت سے وہ چُپ کی چادر
اُوڑھے کہیں خوابوں کے لمبے سفر
پر رواں دواں تھی‛
سُوچوں کے بلند وبالا ڈھیروں پہ
مضبوطی سے قدم گاڑھے
کہیں رُک سی گئ تھی۔
گماں ہوتا تھا کہ وہ چل رہی ہے۔۔۔
چلتی جا رہی ہے۔۔۔
کسی بے نام و نشاں منزل کی طرف
یا خود سے وابستہ رازوں کی طرف
مگر وہ صدیوں سےٹھہری ہوئی
اُسی مقام پہ جہاں
میں نے اُسے چُپ کی دیوی بنایا تھا
جہاں میں نے اُسے پوج کر دفنایا تھا
وہ بُوکھلائی ہوئی
تکتے تکتے صدیوں سے گزرگئ
اور اس مصروف زندگی میں
آس کی ذرا سی چاہ
اُسے پھر سے سفر کا عادی بنا گئ
وہ محبت سی۔۔۔
کیسے جب بولے تو محبت نہ لگے
وہ نازکی کا تحفہ
محبت کی پاکی
وہ بولی تو محبت ہی محبت
چار سُو پھیل گئ
گویا محبت کی بات کی ہو۔