آجکل سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے ایسی ایسی چیزیں وجود میں آ چکی ہیں جو کہ خدائی صفات کے ساتھ برابری اور اتفاق و اختلاف کے معیار پر پہنچ گئی ہیں – ایسی ہی ایک ٹیکنیک ہے آپریشن کے ذریعے جنس تبدیل کرنے کا عمل جو کہ دنیا بھر ھی میں نہ صرف مقبول ہے بلکہ دیگر مسلمان ممالک کی طرح پاکستان میں بھی رائج العمل ہونے کے ساتھ ساتھ عوام میں زیرِ عمل بھی ہے. اسکی شرعی حیثیت کے حوالے سے کئی سوالات اٹھتے ہیں اور یہ سوالات بھی ایک بڑی اکثریت کے پاس موجود ہیں کہ یہ ایک غیر شرعی عمل ہے –
جنس کی تبدیلی
مشہور مذہبی سکالر ڈاکٹر جاوید احمد غامدی کو جب یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے اسکا ایک جامع اور مفصل جواب دیا جس میں انہوں نے کہا کہ یہ محض ایک طریقہ علاج ہے یا پھر اللہ کی مرضی سے انحراف – یہ بات ایک مسئلہ ہے جس پر دو رائے ہیں – انہوں نے کہا کہ بعض انسانوں میں پیدائش کے وقت سے ہی دونوں اجناس کی آپشن موجود ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے آپ کو موجودہ جنس کے مطابق ٹھیک نہیں سمجھتے تو ڈاکٹر کی مدد سے آپریشن کروا کے اپنا علاج جنس تبدیل کے ذریعے کرا لیتے ہیں جو کہ بالکل بھی جائز ہے –
غامدی صاحب کے مطابق دوسری صورت جس میں آپ اپنی موجودہ جنس کو بغیر کسی وجہ کے تبدیل کرا لیتے ہیں یعنی بے کار طور پر جنس تبدیل کراتے ہیں تو اللہ کی مرضی کے خلاف کارروائی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس صورت میں یہ عمل بالکل بھی ناجائز ہے اور نہ صرف نا جائز ہے بلکہ خدا کے حکم کی رو گردانی بھی ہے