اسلامی واقعات
قوم ثمود اپنے دور میں بہت عروج پر تھی. ان لوگوں کا زیادہ تر کام کاشت کاری تھا، یہ لوگ دن رات محنت کرتے تھے، الله تعالی نے ان کی زمین کو بہت زرخیزی عطا کی تھی. قوم ثمود کی قوم میں پہاڑوں کو تراشنے کا ہنر موجود تھا. اور انہوں نے پہاڑوں کو تراش کر ان میں اپنے لئے بڑے بڑے رہائشی محل بنا رکھے تھے، جو روشن اور ہوا دار تھے. اپنی انہی خوبیوں کی وجہ سے یہ قوم باقی قوموں سے زیادہ خوش حال تھی. اور ان کی اس خوش ہالی نے انکو مغرور اور ظالم بنا دیا تھا. خوش ہالی اور عیش بھری زندگی نے انہیں اپنے نبی اور اور رسول حضرت ہود علیہ اسلام کی تعلیمات کو بھلا دیا تھا. انہی کی قوم کا ایک نوجوان سرخ و سفید رنگ، لمبے قد اور مظبوط جسم کا مالک ان تمام عیش و آرام کو چھوڑ کر ان سب سے الگ رہتا تھا، اسے ان سب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ بتوں سے بھی نفرت کرتا تھا. اس نوجوان کا نام ” صالح ” تھا، یہ ایک معزز قبیلے کا با وقار شخص تھا، ان کو الله تعالی نے اپنا نبی بنایا، حضرت صالح نے اپنی قوم کے بڑے بڑے سرداروں کو کھانے کی دعوت دی، کھانے کےبعد آپ نے انکو اسلام کی دعوت دی.
اے لوگ! آج میں نے تمہیں یہاں اس لئے بلایا ہے کہ میں تمہیں یاد کرا سکوں کہ آج تم جو کچھ بھی ہو وو اس خدا کی وجہ ہے جس نے تمکو اپنی نعمتوں سے مالا مال کیا ہے، تم یہ سب جانتے ہو لیکن وقتی طور پر تم یہ سب بھلا چکے ہو، میں چاہتا ہوں کہ تم یہ گمراہی چھوڑ دو، ایک الله کی عبادت کرو، وہی تمہارا اصل رب ہے، اسی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو، اور سرکشی چھوڑ دو. حضرت صالح کی باتیں سن کر سرداروں نے کہا: اے صالح تم ایک عزت دار، معزز اور باوقار قبیلے سے تعلق رکھتے ہو، ہم بھی تمہاری بہت عزت کرتے ہیں لیکن تم نے ہمیں” گمراہ ” کہ کر ہمارے باپ دادا کے دین کو گلی دی ہے، ہم نے اپنے باپ دادا کو ہمیشہ بتوں کی پوجا کرتے ہی دیکھا ہے، ہم اپنے باپ دادا کا دین کیوں چھوڑ دین، یہ کہ کر وہ لوگ ناراض ہو کر چلے گئے. جاتے ہوۓ انہوں نے حضرت صالح کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے یہ باتیں عام لوگوں سے کیں تو وہ خود ذمہ دار ہونگے.
حضرت صالح نے عام لوگوں میں دین کی تبلیغ شروع کر دی، اور اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا. جب انہوں نے اپنی قوم کو بتایا کہ وہ حضرت نوح اور ہود کی طرح نبی ہیں، ان کی بات کا انکار کرنے پر ان پر الله کا عذاب نازل ہو سکتا ہے، تو انکی قوم کے بڑے بڑے سرداروں نے لوگوں سے کہا کہ اگر یہ نبی ہوتا اور جو کچھ یہ کہ رہے ہیں وہ سچ ہوتا تو الله ہم پر یہ مہربانیاں کبھی نہ کرتا کیوں اس نے ہماری زمینوں کو اتنا سر سبز و شاداب کیا اور ہمیں عرب میں کیوں اتنی عزت دی، کاہن کہنے لگے، جو ہاتھ گناہ گار ہوں ان میں الله اتنا ہنر نہ دیتا کہ جسکی وجہ سے وہ پوری دنیا میں عزت دار بن جاتے. کچھ لوگوں نے کہا کہ سب سے الگ رہنے کی وجہ سے ان کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے کچھ کہتے کہ ان پر بدروحوں کا اثر ہو گیا ہے اور کسی نے جادوگر کا نام دیا. آپ نے ان لوگوں کی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور تبلیغ کا کام جاری رکھا آپ کی کوشش سے کچھ لوگوں نے دین اسلام قبول کیا اور وہ بری باتوں اور شرک سے خود کو محفوظ رکھتے. قوم ثمود آپ سے تنگ آ گئی تھی. انہوں نے آپ کے خلاف سازشیں کرنا شروع کر دیں، قوم کے بڑے بڑے سردار ایک دن آپ کے پاس آئے اور آپ سے کہا، اے صالح! ہم تم سے تنگ آ چکے ہیں تمنے ہمیں بہت تنگ کیا ہے، تم ہمیں اپنا کوئی معجزہ دکھاؤ تو ہم تم پر ایمان لے آئیں گے. تب حضرت صالح نے الله کے حکم پرایک اونٹنی کی طرف اشارہ کیا اور کہا، یہ اونٹنی الله کی نشانی ہے، یہ تمھارے مطالبے پر بھیجی گئی ہے، اس لئے ایک دن یہ پانی پئے گی اور ایک دن تم. اگر اس اونٹنی کی باری کے دن تم نے کنویں سے پانی حاصل کرنے کی کوشش کی یا اس اونٹنی کو نقصان پہنچایا تو تم پر الله کا عذاب آ جائے گا. آپ کی بات سن کر قوم کے سردار بہت ڈرے، وہ کچھ عرصہ تو خاموش رہے مگر پھر انہیں اپنے اوپر یہ پابندی بری لگنے لگی، انھے اپنی چراگاہ میں اونٹنی کا چرنا برداشت نہ ہوتا تھا. دو امیر مال دار عورتوں نے دوآدمیوں کو پیسے کا لالچ دے کر اونٹنی کو ختم کرانے کے لئے راضی کر لیا وہ آدمی ڈر بھی رہے تھے مگر پیسوں کے لالچ میں آکر الله کی نشانی اس اونٹنی کو ہلاک کرنے پرراضی بھی ہو گئے. ان آدمیوں نے منصوبہ بنایا کہ جس دن اونٹنی کے پانی پینے کی باری ہوگی وہ اسے اس دن ہلاک کریں گے. انہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا اونٹنی لمبے لمبے ڈگ بھرتی کنویں کے قریب آئی دونوں ظالم اس پر لپکے ایک نے تلوار کا وار کر کہ اسکی کونچیں کاٹ دیں اور دوسرے نے اسکی گردن پر نیزہ مارا- بیچاری اونٹنی زمین پر جا گری. جب لوگوں نے دیکھا کہ اونٹنی تڑپ رہی ہے اور اسکو مارنے والوں کو کچھ بھی نہیں ہوا تو باقی لوگ بھی اس پر جھپٹ پڑے اور سب نے مل کر اونٹنی کو جان سے مار دیا. سب نے حضرت صالح کا مذاق اڑایا کہ ہم نے اونٹنی کو مار دیا لیکن الله کا عذاب ہم پر نہیں آیا، اب انہوں نے حضرت صالح کو ختم کرنے کا ارادہ کیا اور ایک رات جب انہوں نے ان کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا اور ہر قبیلے سے ایک ایک آدمی لے لیا تاکہ انکا قبیلہ ان سے بدلہ نہ لے سکے. الله تعالی کا قانون ہے کہ اس کے رسولوں کو انکی قوم یوں شہید نہی کر سکتی چنانچہ حضرت صالح علیہ اسلام کو الله نے اسی رات حکم دیا کہ وہ اپنے ماننے والوں کو لیکر وہاں سے نکل جائیں. اور اسی رات وادی میں ایک طوفان آیا جس نے اہل ثمود کو تنکوں کی طرح بکھیر کے رکھ دیا. صبح ہوئی تو انکی بستی عبرت کا نمونہ ہو چکی تھی، ایک بھی کافر نہیں بچا. حضرت صالح علیہ اسلام ایمان لانے والوں کے ساتھ فلسطین کے علاقے رملہ کے قریب آ کر آباد ہو گئے اور باقی زندگی وہیں گزاری…