حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ صحابہ کے ساتھ ایک محفل میں بیٹھے تھے کہ دو نوجوان محفل میں آئے اور انہوں نے آتے ہی ایک شخص کی طرف اشارہ کیا اور کہا، یا عمر، یہی ہے وہ، حضرت عمر پوچھتے ہیں کیا کیا اس نے؟ اے امیر المومنین، اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے. حضرت عمر نے اس شخص سے پوچھا، کیا تو نے اس کے باپ کو قتل کیا ہے؟
اس شخص نے کہا، ہاں، مجھسے ان کا باپ قتل ہو گیا ہے. حضرت عمر نے پوچھا، کیسے؟ اس شخص نے کہا، یا عمر، ان کا باپ اپنے اونٹ کو لے کر میرے کھیت میں گھس آیا تھا میں نے اس کو منع بھی کیا مگر وہ باز نہیں آیا تو میں نے اسے ایک پتھر دے مارا، وہ پتھر اس کے سر پر لگا اور وہ مر گیا.حضرت عمر نے کہا، پھر تو قصاص دینا پڑیگا. موت ہے اس کی سزا.وہ شخص کہتا ہے، اے امیرالمومنین، اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنے بیوی بچوں کے پاس جانے دین تاکہ میں انہیں بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا. ان کا الله اور میرے سوا کوئی اسرا نہیں ہے، میں اس کے بعد واپس آ جاؤںگا. عمر رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ، کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کے واپس بھی آ جائے گا، پوری محفل میں کوئی بھی اسے نہیں جانتا تھا اب سب خاموش تھے یہ کسی زمین یا دس درہم کی ضمانت نہیں تھی بلکہ ایک گردن کی بات تھی کہ اگر وہ واپس نہ آیا تو ضمانت دینے والے کو اپنی گردن دینی ہوگی. محفل میں موجود صحابہ پر خاموشی چھا گئی تھی. حضرت عمر بھی سوچ رہے تھے کہ کیا واقعی قصاص کے طور پر اس جوان کو قتل کرنا ہوگا اور اگر ایسا نہ ہوا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا. حضرت عمر نے ان نوجوانوں سے کہا کہ معاف کردو اس کو، نوجوان نے بنا جھجھک کے کہا، نہیں امیر المومنین. جس نے ہمارے باپ کو قتل کیا اسے ہم کیسے چھوڑ سکتے ہیں. حضرت عمر نے پھر مجمع سے پوچھا کون ہے جو اس آدمی کی ضمانت دے گا؟ حضرت ابوذر غفاری رضی الله تعالی عنہ اپنے زہد و صدق سے بھرپور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہنے لگے، میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی، حضرت عمر نے کہا، ابوذر اس نے قتل کیا ہے، حضرت ابوذر نے کہا چاہے قتل ہی کیا ہو، حضرت عمر نے پوچھا، جانتے ہو اسے؟ کہا ! نہیں جانتا، حضرت عمر نے پوچھا تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟ حضرت ابوذر نے کہا، میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ جھوٹ نہیں بول رہا ہے. انشاللہ یہ لوٹ کر واپس آجائے گا. حضرت عمر نے کہا، ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا. حضرت ابوذر نے کہا، امیرالمومنین پھر الله مالک ہے. وہ شخص تین دن کی مہلت لے کر چلا گیا کہ گھر والوں کو بتا کر اور کچھ ضروری کام کر کہ آ جائے گا. اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی الله تعالی کو اس کا بہت بیچینی سے انتظار تھا ایک ایک لمحہ بڑی مشکل سے گزارا تھا. اب سب مقررہ وقت پر اس جگہ پر جمع تھے اور اس انسان کا انتظار کر رہے تھے. حضرت عمر نے سوال کیا، کہا ہے وہ آدمی؟ حضرت ابوذر نے مختصر جواب دیا، مجھے کوئی پتا نہیں ہے یا امیرالمومنین.
حضرت ابوذر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں سورج آج تیزی سے ڈوب رہا تھا، محفل پہ ہو کا عالم ہے الله کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہونے والا ہے، مغرب سے کچھ دیر پہلے وہ شخص آیا، بیساختہ حضرت عمر کے منہ سے الله اکبر کی صد نکلی مجمع نے بھی نعرہ لگایا. حضرت عمر نے کہا اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم تیرا کیا بگاڑ لیتے نہ ہم تجھے جانتے ہیں نہ تیرا گھر، خاندان. وہ بولا ” امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے. آپ نے ابو زر سے پوچھا تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی؟ ابو زر نے کہا مجھے یہی ڈر تھا کہ کوئی یہ نہ کہ دیں کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے. نوجوانوں نے کہا ہم نے اس کی صداقت کی وجہ سے اپنے باپ کا خون معاف کر دیا ہے. ہمیں یہ ڈر ہے کہ کوئی یہ نہ کہ دے کہ لوگوں سے عفو اور درگزر ہی اٹھا لیا گیا ہے.