اسلامی واقعیات
حضرت ربیع بن سلیمان رحمت الله علیہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے ساتھی حج کے لئے جا رہے تھے. جب ہم کوفہ پہنچے میں ضرورت کا کچھ سامان لینے کے لئے بازار گیا. بازار سے تھوڑا آگے ایک ویران سی جگہ پر میں نے ایک خچر مرا ہوا پڑا دیکھا اور ایک عورت اس کے پاس بیٹھی ہے اور وہ عورت چاقو سے اس خچر کا گوشت کاٹ کاٹ کر اپنی زنبیل میں ڈال رہی تھی. میں نے جب یہ سب دیکھا تو مجھسے رہا نہ گیا اور میں نے سوچا اس عورت کو دیکھنا ہوگا کہیں یہ عورت یہ گوشت لوگوں کو پکا کر کھلاتی نہ ہو. اصل بات جاننے کے لئے وہ اس عورت کے پیچھے خاموشی سے چلنے لگے آخر وہ چلتے چلتے ایک مکان کے پاس رکی اور اس نے دروازے پر دستک دی دروازہ ایک خستہ حال لڑکی نے کھولا عورت نے زنبیل اس کو دے کر کھا اس کو پکا لواور خدا کا شکر ادا کرو. انہوں نے دروازے کی درز سے جھانکا تو معلوم ہوا کہ وہاں رہنے والے ایک خستہ حال اور غریب لوگ ہیں. لڑکی نے وہ گوشت لیا اور اسے کاٹ کر آگ پر بھوننے لگی یہ دیکھ کر حضرت ربیع کو بہت تکلیف ہوئی، انہوں نے باہر سے آواز لگائی، اے الله کی بندی! الله کے واسطے اس کو نہ کھانا. اس نے پوچھا تو کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں ایک پردیسی ہوں. اس نے پوچھا تو ہم سے کیا چاھتے ہو؟ ٣ سال سے ہمارا کوئی مددگار نہ کوئی والی ہے تو کیا چاہتا ہے؟
آپ نے کہا، مجوسیوں کے ایک فرقے کے سوا مردار کا کھانا کسی مذھب میں جائز نہیں ہے، وہ کہنے لگی، ہم خاندان نبوت کے شریف(سید)ہیں. میری چار بیٹیاں ہیں ان کے باپ کی خواہش تھی کہ وہ ان کا نکاح اپنے جیسے ہی لوگوں میں کر دے گا مگر اس کا انتقال ہو گیا. ہم جانتے ہیں کہ مردار کھانا جائز نہیں ہے لیکن اضطرار میں جائز ہوتا ہے. ہم چار دن کے فاقہ سے ہیں. حضرت ربیع یہ سن کر بہت بے چین ہو گئے وہ واپس گئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں نے اپنے حج کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے اور تمام سامان حج کا چادریں اور احرام وغیرہ وہ سب لیا اور نقد چھ سو درم تھے وہ لئے اور ان میں سے سو درم کا آٹا خریدا اور باقی درم آٹے میں چھپا کر اس عورت کے گھر پہنچے اور یہ سب سامان اور آٹا وغیرہ اس کو دے دیا……اس عورت نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا اے ابن سلیمان الله تمھارے پچھلے گناہ معاف کرے اور تجھے حج کا ثواب عطا کرے اور تجھے جنت میں جگہ عطا کرے. اور ایسا بدلہ دے کہ تمہیں بھی ظاہر ہو جائے. حضرت ابن ربیع کہتے ہیں کہ حج کا قافلہ روانہ ہو گیا میں ان سے دعا کرانے وہیں رکا رہا حج پر نہ جانے کے دکھ اور صدمہ سے میری آنکھوں میں سے آنسو نکل ائے. جب میں قافلہ سے ملا تو میں نے انہیں دعا دی کہ الله تمہارا حج قبول کرے اور تمھارے اخراجات کا بدلہ عطا فرمائے…وہ سب یہ سن کر بہت حیران ہوۓ.
حضرت ربیع نے کہا یہ اس آدمی کی دعا ہے جو حاضری کے لئے دروازے سے واپس آگیا، وہ کہنے لگے کہ کیا تم انکار کرتے ہو کہ تم عرفات کے میدان میں ہمارے ساتھ نہیں تھے. تمنے ہمارے ساتھ طواف نہیں کیا؟ حضرت ربیع یہ سب سن کر بہت حیران ہوۓ کہ میں تو حج کے لئے گیا ہی نہیں مگر ان سب کے کہنے کے مطابق میں وہیں تھا کہ اتنے میں ان کے قافلہ کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا جب ہم باب جبریل سے باہر آرہے تھے لوگوں کی بکثرت موجودگی کی وجہ سے آپ نے یہ تھیلی میرے پاس امانت رکھوائ تھی. جس کی مہر پر لکھا ہوا ہے، جو ہم سے معاملہ کرتا ہے نفع کماتا ہے، یہ کہ کر اس نے وہ تھیلی ان کو دے دی. آپ نے وہ تھیلی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی اس کے بعد آپ گھر ائے اور عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد اپنی تسبیحات مکمل کیں اور اسی سوچ بچار میں لیٹ گئے کہ ماجرہ کیا ہے کہ آپ کی آنکھ لگ گئی اور آپ کو خواب میں حضور صل الله علیہ وسلم کی زیارت ہوئی آپ نے تبسم فرماتے ہوۓ ارشاد فرمایا کہ ، اے ربیع رحمت الله علیہ، آخر ہم کتنے گواہ اس پر قائم کریں کہ تو نے حج کیا ہے؟ تو مانتا ہی نہیں …بات یہ ہے کہ، جب تو نے اس عورت پر، جو میری اولاد تھی، خرچ کیا اور اپنا حج کا ارادہ ملتوی کیا، تو الله نے اس کا نعم البدل تجھے عطا فرمایا، الله نے ایک فرشتہ تیری صورت بنا کر، اس کو حکم دیا کہ وہ قیامت تک ہر سال تیری طرف سے حج کیا کرے اور دنیا میں تجھے یہ عوض دیا گیا کہ چھ سو درم کے بدلے چھ سو دینار (اشرفیاں) عطا کیں… ربیع کہتے ہیں کہ جب میں سو کر اٹھا تو میں نے اس تھیلی کو کھول کر دیکھا تو اس میں چھ سو اشرفیاں تھیں.