فرشتوں نے دیکھا کہ دنیا میں انسان اپنی مرضی کر رہا ہے وہ سب الله اور اس کے احکام کو بھلا کر گناہ پر گناہ کر رہے ہیں. یہ سب دیکھ کر فرشتوں کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے الله سے کہا کہ: اے الله تو نے ان کو زمین پر اپنا نائب بنایا تھا مگر یہ تو تیری نافرمانی کر رہے ہیں گناہ پر گناہ کر رہے ہیں ان کے دل میں تیرا خوف اور ڈر نہیں ہے.
الله تعالی نے فرمایا، ان میں غصہ اور شہوت رکھی ہے میں نے اس لئے یہ گناہ کرتے ہیں اور تم میں یہ چیزیں نہیں ہیں اس لئے تم گناہ سے محفوظ ہو اگر تم میں بھی یہ چیزیں آجائیں تو تم بھی گناہ کرنے لگو. مگر فرشتوں نے کہا، نہیں ہم جب بھی گناہ نہیں کریں گے. الله تعالی نے کہا تو ٹھیک ہے تم اپنی جماعت سے دو پرہیز گار تیار کرلو اس امتحان کے لئے.
چنانچہ ہاروت اور ماروت دونوں کو اس کام کے لئے چنا گیا. اور الله تعالی نے ان کو دونوں چیزیں غصہ اور شہوت عطا کر دیں. اور شہر بابل میں اتار دیا الله تعالی نے فرمایا کہ تم دونوں قاضی بن کر لوگوں کے فیصلے کیا کرو اور شام کو اسم اعظم کے زریعے آسمان پر آجایا کرو.
ایک مہینہ تک تو سب ٹھیک چلتا رہا لوگوں میں ان دونوں کے فیصلے بہت مشہور ہو گئے تھے. ایک دن ایک بہت ہی حسین و جمیل عورت ان کے پاس اپنا ایک مقدمہ لے کر آئی یہ دونوں اس کے حسن کے عاشق ہو گئے اور انہوں نے اس کو غلط کام کرنے کی طرف بلایا مگر اس نے کہا تمہارا دین اور ہے میرا دین کچھ اور ہے اور اگر میرے شوہر کو پتا چل گیا تو وہ تمہیں مار دیگا. پہلے تم میرے بت کو سجدہ کرو اور پھر میرے شوہر کو مار دو اس کے بعد میں تمہاری اور تم میرے. انہوں نے اس کی بات سن کر اسکو انکار تو کر دیا مگر اندر سے وہ دونوں اس کے عشق میں جل رہے تھے. عشق کی آگ بھڑک چکی تھی. کچھ دن گزرنے کے بعد وہ دونوں اس کے گھر جا پہنچے اس نے پھر وہی کہا: یا توتم شراب پیو، یا میرے شوہر کو قتل کردو، یا میرے بت کو سجدہ کرو. انہوں نے سوچا سجدہ کرنا شرک ہے اور قتل کرنا حق العباد ہے. لاؤ ہم شراب پی لیتے ہیں. اور یہ کہ کر انہوں نے شراب پی لی. شراب پی کر وہ مست ہوگئے اور اس مستی میں انہوں نے بت کو سجدہ بھی کیا اس کے شوہر کو قتل بھی کیا اور زہرہ کو اسم اعظم بھی بتا دیا اسم اعظم کی مدد سے وہ آسمان پر پہنچ گئی اور حق تعالی نے اس کی روح کو زہرہ ستارے سے متصل کیا اور اس کی شکل زہرہ ستارے کی طرح ہو گئی. شام کو جب انکا نشہ اترا تو وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ ہوۓ وہ اسم اعظم بھی بھول چکے تھے.
الله تعالی نے فرشتوں سے فرمایا کہ انسان تو میری تجلی سے دور رہتا ہے یہ تو روز شام کو حاضر بارگاہ ہوتے تھے اور پھر بھی شہوت سے مجبور ہو کر گناہ کر بیٹھے، تو انسان اگر گناہ کر لے تو کیا تعجب ہے اس نے میری تجلی نہیں دیکھی ہے، یہ سن کر فرشتے بہت شرمندہ ہوۓ اور انہوں نے زمین والوں پر لعنت ملامت کرنے کی بجائے ان کے حق میں دعائیں کرنی شروع کر دیں.
ان دونوں فرشتوں نے حضرت ادریس کے دربار میں حاضر ہو کر ان سے درخوست کی کہ وہ الله سے انکی سفارش کر دیں آپ کے کہنے پر اللہ تعالی نے فرمایا کہ ان سے کہو دنیا اور آخرت دونوں میں سے کسی ایک عذاب کو چن لیں. انہوں نے کہا دنیا کا عذاب تو وقتی ہے مگر آخرت کا عذاب ہمیشہ کا ہے اس لئے انہوں نے دنیاوی عذاب قبول کر لیا. الله نے انکو زنجیروں میں جکڑ کر بابل کے کنویں میں الٹا لٹکوا دیا اور اس کے نیچے آگ دہکا دی ہے انکی زبانیں پیاس کی شدت سے باہر آرہی ہیں…..