اُردو کہانیاں
ہمارے چچا کا اونٹوں کا بہت بڑا کاروبار تھا .انکا یہ کاروبار نہ صرف پاکستان میں پھیلا ہوا تھا بلکہ افغانستان اور ایران میں بھی وسیع پیمانے پر تھا .چچا نے اپنے کاروبار کو پھیلانے کے لیے عرب جا کے اونٹوں کی تجارت کا سوچا اور ایک دن چچا نے روپوں سے بھری تھیلی اپنی بغل میں دبائی اور اونٹوں کے ساتھ عرب کے سفر پے نکل کھڑے ہونے . پندرہ دن اور سولہ راتوں کے سفر کے بعد وہ عرب کے قریب ایک سرائے میں جا پوھنچے ،وہاں انہوں نے ایک چٹائی کرایہ پر لی اور روپوں کی تھیلی اپنے تکیے کے نیچے رکھ کے سو گئے . صبح جب انکی آنکھ کھلی تو سب سے پہلے انہوں نے روپوں کی تھیلی کو دیکھا ،اس کے بعد وہ اٹھے اور ہاتھ منہ دھویا، اتنی دیر میں ایک عربی شخص ان کے پاس آیا اور اسنے انکو سلام کیا اور حال احوال پوچھا، اس شخص نے چچا سے کھا میرے سردار نے مجھے اپ کے پاس بھیجا ہنے اپ کہاں سےتشریف لاین ہیں اور کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟چچا نے اپنے ملک کا نام ،اپنا نام اور بغداد جانے کا ارادہ غرض سبکچھ اسے بتا دیا .اس عرب نے اپنے سردار سے سارا حال کہ سنایا. سردار نے کہلا بھجا اپ پردیسی ہیں اور ہمارے مہمان ہیں ہمارا فرض ہنے کہ ہم آپکی خدمت کریں ہم بھی بغداد جا رہے ہیں اگر اپ مناسب سمجھیں تو ہمارے ساتھ ہی چلیں .چچا میاں کو اچھا موقع ہاتھ آیا .انہوں نے فورا حامی بھر لی اور سردار کے ایک اونٹ پر سوار ہو گئے .صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ریگستانی ہوا کھاتے اور اونٹوں کے گھٹنوں پے بندھی ہوئی گھنٹیوں کی چھن چھن سنتے بغداد کی طرف چل دییے.
عرب سردار کا نام موسیٰ تھا لکن قافلے والے اسے شیخ کہتے تھے .اس کے قافلے میں 40 اونٹ اور 15 آدمی تھے .شیخ خود ایک خچر قسم کے عربی ٹٹو پے سوار تھا ،شیخ کو اپنے ٹٹو سی بہت محبت تھی وہ اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا یہاں تک کہ رات کو بھی وہ ایک ہی خیمے میں سوتے تھے .چچا کو اپنی روپوں والی تھیلی سے بہت محبت تھی وہ اسے رات کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ کے سوتے تھے اور صبح آنکھ کھلتے ہی سب سے پہلے اپنی تھیلی کو دیکھتے پھر دوسرا سانس لیتے. چلتے وھلتے آٹھ دن گزر گئے چچا کا تھکن کے مارے برا حال اتنا لمبا سفر اور پھر تھیلی کی فکر ،یہ سب آدمی کا دماغ فیل کرنے کے لیے کافی ہنے .نویں شام جیسے ہی قافلے نے پڑاؤ ڈالا تو چچا جلد ہی سو گئے انہیں تھیلی کی بھی فکر نہی ہوئی. سارا دن کا تھکے ہونے تھے رات کو سوے تو صبح ہی آنکھ کھلی .آنکھ کھلتے ہی جب چچا میاں نے تھیلی کو دیکھا تو ان کے ہوش اڑ گئے ،تھیلی تکیے کے نیچے سے غایب تھی. چچا میاں نے تو شور مچا کہ سارا قافلہ سر پے اٹھا لیا ،شیخ کو جب اس معاملے کی خبر ہوئی تو اس نے چچا کو تسلی دی کہ اپ گھبراے نہیں شام تک آپکی تھیلی آپکو مل جایگی. یہ کہ کے شیخ اپنے ٹٹو پر سوار ہوا اور خیمے سے باہر کی طرف چل پڑا ،چچا کا دل جل گیا کہ یہ تو آیسے تسلی دے کہ گیا ہنے کے جیسے اس کے پاس جادو کا آئینہ ہنے جس میں وہ چور کو دیکھ لیگا اور پکڑ لیگا. ٹھیک دوپہر کو شیخ اپنے ٹٹو پے واپس آیا اور سیدھا اپنے خیمے میں گھس گیا، اب چچا اس انتظار میں تھے کہ شیخ اب کچھ بتاے کہ اب بتاے مگر شیخ کو نہ باہر آنا تھا نہ وہ آیا باہر ،سورج ڈھل گیا شام ہو گئی. مغرب کی اذان کے بعد شیخ اپنے خیمے سے ناہر آیا اس نے سبز رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا اور بہت خوبصورت پگڑی باندھی ہوئی تھی ،مگر تعجب کی بات یہ تھی کہ شیخ کا پیارا ٹٹو اس کے ساتھ نی تھا اور خیمے کا پردہ بھی اٹھا ہوا نہی تھا. شیخ نے زور زور سے قافلے کے لوگوں کو پکارا ذرا سی دیر میں پندرہ کے پندرہ آدمی حاضر ہو گئے ،شیخ نے انہیںمخاطب کر کہ شیخ کی طرف اشارہ کیا اور کھا تم سب جانتے ہو کہ یہ شخص پردیسی ہنے اور ہمارا مہمان ہے اور آج صبح اسکی روپوں کی تھیلی گم ہو گی ہے ،اور تم سب یہ بھی جانتے ہو کے میرا ٹٹو بہت قابل ہے ،یہ اڑتی چڑیا کے پر گن سکتا ہے اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ اگر میں چاہوں تو ابھی چور کی چوری کا پول کھول دیگا میرا ٹٹو پھر چور کو چوری کی وہی سزا دی جایگی جو ہماری شرح میں دی جاتی ہنے. اب بری باری تم میں سے ہر شخص اندر جایگا اور میرے ٹٹو کی دم دونوں ہاتھوں سے زور سی پکڑ کے کھنچے گا ،جو شخص بے گناہ ہوگا ٹٹو اسےکچھ نہی کیھگا ،لکن جو چور ہوگا ٹٹو زور زور سے ڈھینچو ڈھینچو کریگا اس طرح چور پکڑا جایگا. چچا یہ تماشا دیکھ رہے تھے اور دل میں جل رہے تھے کے بھلا ایک جانور کیسے چور کا پتا بتاے گا. قطار میں پہلا آدمی خیمے میں گیا اور دم کھینچ کے واپس ا گیا مگر ٹٹو کی کوئی آواز نہی آئی .اسی طرح دوسرا ،اور پھر تیسرا ،پھر ایک کے بعد ایک خیمے میں جاتے رہے اور واپس اتے رہے مگر ٹٹو کی آواز ایک بار بھی نہی آئی ،چچا دل ہی دل میں لا حول پرھتے رہے. قطار بناؤ اور سب اپنے اپنے ہاتھ اوپر اٹھاؤ ،شیخ نے قافلے سے کھا.
سب نے اپنے ہاتھ اپر اٹھا لیۓ جیسے دعا کا وقت اٹھاتے ہیں .اب شیخ باری باری ایک ایک کے پاس جاتا اور اس کا ہاتھ اپنی ناک کے پاس لاتا اور کچھ دیر سونگھتا، پھر اسی طرح دوسرے کے پاس جاتا اور اسکا ہاتھ بھی ناک کا پاس لا کے سونگھتا پھر تیسرے کے پاس گیا ،پھر چوتھے کے پاس ،پھر پانچویں کے پاس اور پھر چٹھے کی باری آئی ،چھٹے کی باری میں شیخ نے بہت دیر تک اسکا ہاتھ سونگھا اور پھر ساتویں کے پاس ا گیا ،ساتویں کے پاس سے پھر واپس چھٹے کے پاس آیا اور پھر شیخ زور سے چلایا کہ یہ ہے چور –یہ ہے چور، شیخ نے اس آدمی سے کہا تو جانتا تھا کہ یہ آدمی پردیسی ہے اور ہمارا مہمان ہنے تو نے اسکا مال چرا کے ہمیں بھی ذلیل کیا اور خود بھی الله اور اس کے رسول کی نذر میں ذلیل ہوا .چل واپس کر اسے اسکی تھیلی، وہ آدمی بہت شرمندہ ہوا اور قریب لگے کھجور کے درخت کے پاس چلا گیا دو ڈھائی فٹ ریت ہٹانے کے بعد روپوں کی تھیلی نکل آئی اس نے وہ تھیلی لا کے چچا کو دے دی .چچا اپنی تھیلی پا کا بہت خوش ہونے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ کسی گہری سوچ میں بھی تہے چوکہ وہ ایک تاجر تھے تو بات کی طہ تک جانے کی انکی پرانی عادت تھی .وہ شیخ کے پاس گئے اور اس سے کھا مجھے سمغ نی آئی کہ تمھارے خچر کا چور سے کیا واسطہ ؟ شیخ مسکرایا اور کہنے لگا بات یہ ہے کہ میں جب صبح جنگل کی طرف گیا تھا وہاں سے ایک بوٹی لینے اس بوٹی کی خوشبوں بہت تیز ہے میں نے اس بوٹی کا عرق نچوڑا اور ٹٹو کی دم اس میں بھگو دی اور جب شام کو سبکو دم مروڑنے کو کہا تو جو چور تھا اسنے دم کو ہاتھ بھی نہی لگایا تھا اس لیے باقی سب کے ہاتھوں سے وہ خوشبوں ا گئی لکن چور کے ہاتھ سے نہی آئی اس لۓ چور پکڑا گیا .اب تم مہربانی کر کے یہ بات کسی کو نہ بتانا.. خچر کے جادو کا بھرم قائیم رہے.