زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اقبال کا یہ مشہور عام شعر ہر لحاظ سے پاکستانی فنکاروں قلم کاروں اور دیگر شعبوں میں کمال حاصل کرنے والوں پر عین صادق آتا ہے ۔ انہی فنکاروں میں سے ایک سندھ کا ایک عظیم فنکار فقیرو منگھوڑا ہے جو اب فقیرا فقیرو کے نام سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے ۔ اسکو یورپ مصر بھارت اٹلی اور کئی ممالک نے پیشکش کی کہ وہ وہاں جا کر رہائش اختیار کرے اور اپنے فن کو وہاں کے وسائل سی نمایاں کرے اور پھر انکو فائدہ دے مگر وہ نہیں مانتا ۔ اسکی انسپائریشن صرف اپنی مٹی ہے جس سے وہ طرح طرح کے شاہکار بناتا ہے اور پھر انکو اپنے ہنر سے سنوارتا ہے ۔ فقیرو اپنے شاہکاروں کو پتھروں کی قید سے رہائی دیتا ہے اور پھر ان کے وجود سے لطف اندوز ہوتا اور دنیا کو بھی محظوظ کرتا ہے ۔
بلا شبہ فقیرو پاکستان کے لئے اپنے عہد کا مائکل اینجلو اور ایک عہد ساز مجسمہ ساز ہے ۔ وہ اپنی غربت کی و جہ سے شوق ہونے کے باوجود د آرٹ کی تعلیم حاصل نہیں کر سکا مگر انشااللہ آنے والی نسلوں کے لئے عہد ساز ثابت ہو گا ۔
دنیا کے کئی ممالک میں اسکے فن کی نمائیش ہو چکی ہیں اور اسکی عظمت کا جاگتا ثبوت یہ ہے کہ دنیا بھر سے اسکے فن کے ضرورت مند اسکے غریب خانے پہ حاضری دیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے اسکے شہ پاروں کی ایک جھلک