لندن کا مشھور رائل البرٹ ہال بے تحاشا تماشایوں سے کھچا کھچ بھرا پڑا تھا، سب کی نظریں اسٹیج کے پردے پر تھیں. ہر آنکھ اپنے پسندیدہ سٹنڈ اپ کامیڈین کی ایک جھلک دیکھنے کو بیتاب تھی. وہ اپنے ہیرو کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کو بے چین تھے. آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہویں اور چند لمحوں بعد پردہ اٹھا اور اندھیرے میں ایک جگمگاتا چہرہ ان کے سامنے ا چکا تھا. جس کو دیکھ کے تماشائی اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو گئے اور تالیوں کی گونج میں بھر پور انداز سے اپنے کامیڈین کا استقبال کیا. ایک گورا چٹا آدمی مشھور امریکی سٹنڈ اپ کامیڈین ایمو فلپس تھا. اس نے ہاتھ اٹھا کہ مسکراتے ہوۓ اپنے چاہنے والوں کا شکریہ ادا کیا، اور بڑے ہی گھمبیر انداز میں بولا: میرا باپ کیتھولک ایک بہت ہی غریب آدمی تھا، میرا بچپن بہت ہی کسمپرسی میں گزرا تھا، مجھے بچپن سے ہی باہیکس کا بہت شوق تھا، میں جب بھی اپنے باپ سے فرمائش کرتا وہ مجھے کہتا خدا سے مانگو وہ سب دیتا ہے، میں نے بھی خدا سے مانگنے میں کوئی کسر اٹھا نہی رکھی تھی، اور دن رات اپنے سپنوں کی باہیکس کو خدا سی مانگنا شروع کر دیا. میں جب بڑا ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا باپ ایک اچھا انسان تھا، لیکن تھوڑا سا بیوقوف تھا، اس نے مذھب کوسیکھا تو تھا لکن سمجھا نہی تھا لکن میں سمجھ گیا تھا۔ اتنا کہ کے ایمو فلپس نے مائیکروفون اپنے منہ کے پاس سے ہٹا لیا اور ہال پر نظر ڈالی تو دوردور انسانوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے لکن ایسی پن ڈراپ سائلنس تھی کہ اگر اس وقت سٹیج پر سوئی بھی گرتی تو اسکی آواز بھی کسی دھماکے سے کم نہی ھوتی ، ہر شخص ایمو فلپس کی بات مکمل سننا چاہتا تھا، کیونکہ وہ بلیک کامیڈی کا بادشاہ تھا، وہ مذاق ہی مذاق میں فلسفوں کی گتھیان سلجھ دیتا تھا. ایمو نے مائیکرو فون دوبارہ اپنے ہونٹوں کے قریب کیا اور بولا: میں بائیک کی دعایں مانگتا مانگتا بڑا ہو گیا لیکن مجھے بائیک نہی ملی، پھر ایک دن میں نے اپنی پسندیدہ بائیک چرا لی بائیک چرا کر میں گھر لے آیا اور اس رات میں نے ساری رات خدا سے گر گرا کر معافی مانگی اور اگلے دن معافی کے بعد میرا ضمیر ہلکا ہو چکا تھا اور مجھے میری پسندیدہ بائیک مل چکی تھی اور میں جان چکا تھا کے مذھب کیسے کام کرتا ہے. یہ کہ کے ایمو فلپس جیسے ہی خاموش ہوا تو پورا حال قہقہوں سے گونج اٹھا، ہر شخص ہنس ہنس کے بے حال ہو گیا. کیا اپ جانتے ہیں کہ اس لطیفے کو سٹنڈ اپ کامیڈی کی تاریخ کے سب سے مشھور لطیفے کا اعزاز حاصل ہے. اتنا کہنے کے بعد ایمو فلپس نے پھر سے مائیکرو فون ہونٹوں کا قریب کیا اور بولا: اگر تم کبھی کسی مالدار شخص کو معافی مانگتے دیکھو تو یاد رکھنا وہ مذھب سے زیادہ چوری پر یقین رکھتا ہے. اتنا کہ کر ایمو فلپس پردے کے پیچھے غایب ہو گیا اور لاکھوں شائقین ہنستے ہنستے رو پڑے کیونکہ یہ ایسا جملہ تھا جس نے بہت سارے فلسفوں کی گتھیان سلجھا دی تھیں. میں دو دن سی دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمام لوگ جن پر پاکستان میں کرپشن، پیسہ چوری منی لانڈرنگ ٹیکس چوری اور معاشی دہشت گردی کے عدالتی کیس چل رہے ہیں. وہ سب لوگ جن میں نواز شریف ،حسین نوازاوراسحاق ڈار شامل ہیں، وہ مکہ مدینہ میں قران پاک پڑھتے ہوۓ ، نماز پڑھتے ہوۓ جالیوں کو چومتے ہوۓ اور ہزار طرح کی مناجات کرتے ہوۓ تصویریں کھنچوا کھنچوا کے پاکستان بھیج رہے ہیں اور لوگوں سے کہ رہے ہیں دیکھو ہم کتنے مذہبی ہیں ہم تو ہر لمحہ الله سے توبہ استغفار کرتے رہتے ہیں. اور میرے کانوں میں بار بار ایمو فلپس کا وہ جملہ گونج رہا ہے. اگر تم کبھی کسی مالدار شخص کو خدا سے معافی مانگتے دیکھو تو یاد رکھنا وہ مذھب سے زیادہ چوری پر یقین رکھتا ہے. “کیا مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں ایمو فلپس کی بات پہ یقین کرنا چاہیے یا نہیں.