عبداللہ بن حذیفہ کی سر کردگی میں ایک فوجی دستہ محاذ جنگ کے لئے جا رہا تھا کہ رستہ بھٹک کر وہ رومی علاقے میں چلا گیا، اور رومیوں نے انہیں گرفتار کر لیا. اب عبدللہ بن حذیفہ رومی حاکم کی تمام شرائط پر پورا اترتے تھے، اور حاکم قیصر روم تھا.سپاہیوں نے انہیں قیصر کے دربار میں پیش کیا اور بادشاہ سے انعام و اکرام لے کر رخصت ہوگئے. عبدللہ بن حذیفہ اگلے دن بادشاہ کے دربار میں تھے اور درباری انکو اور ان کے ساتھیوں کو خونخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے ان کے چہروں پر نفرت اور تکبر صاف نظر آ رہا تھا. جب کہ حضرت عبدلالله کے چہرے پر عجیب اطمینان اور سکون تھا. قیصر نے حضرت حذیفہ سے ان کے مذھب اور قوم کے بارے میں پوچھا: آپ نے اپنا مذھب اور قوم بتا دی، اس نے کہا، میرے پاس تمھارے لئے ایک تجویز ہے. آپ نے خوف سے بے نیاز ہو کر پوچھا، وہ کیا ہے؟ تم اپنا مذھب چھوڑ کر میرا مذھب اختیار کرلو تو میں تمہیں آزاد کر دونگا اور تمہیں عزت اور مرتبے والا بنا دونگا. آپ نے ایک لمحہ بھی سوچے بنا جواب دیا کہ: اے بادشاہ، یہ نہ ممکن ہے، میں ہزار مرتبہ بھی موت کو سینے سے لگانے کے لئے تیار ہوں مگر اپنا دین کبھی نہیں چھوڑوں گا. بادشاہ جواب سن کر بولا، میں نے تمھارے اور تمہاری قوم کے بارے میں جو کچھ سنا تھا تم بلکل ویسے ہی ہو، لیکن پھر بھی میرا مشورہ ہے تم میرا دین اپنا لو میں تمہیں اپنا خاص وزیر بنا لونگا. آپ نے کہا، خدا کی قسم! تم دین بدلنے کے عوض مجھے اپنی پوری سلطنت اور میرے وطن کی بادشاہت بھی دے دو تو بھی میں اپنا دین نہیں بدلوں گا. زنجیروں میں بندھے ایک قیدی سے انکار سن کر بادشاہ کو شدید غصّہ آ گیا اور وہ بولا، میں تمہیں قتل کرا دونگا. آپ نے جواب دیا کہ کرا دو قتل لیکن میں اپنا دین نہیں بدلوں گا.عبدالله بن حذیفہ کو قران کی سورۂ النحل کے یہ الفاظ یاد آہ گئے، ترجمہ! “جو اپنے ایمان لانے کے بعد الله کا کفر کرے گا، بجز اس کے جسم پر جبر کیا گیا ہو، اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو،لیکن جو کفر کے لئے سینہ کھول دے گاتو اس پر الله کا غضب اور عذاب عظیم ہے” بادشاہ نے چلا کر کہا، اس کو پھانسی پر چڑھا دو. بادشاہ نے وزیر کو بلایا اور ساتھ ہی اسے پھانسی کے بارے میں کچھ ہدایت دی. جلاد تک بادشاہ کا حکم پہنچا دیا گیا، حضرت حذیفہ کو تختے سے باندھ دیا گیا اور جلاد نے نشانہ لیا اور تیر چھوڑ دیا، تیر عین نشانے پرلگا…..بادشاہ نے وزیر کو ہدایت دی تھی کہ تیر دل میں نہیں ہاتھ پر مارا جائے کہ ان کا بازو زخمی ہو اور وہ درد سے بیزار ہو کر اس کا دین قبول کر لیں .درد کی وجہ سے آپ کی پیشانی پسینے سے بھر گئی مگرآپ نے زبان سے اف تک نہیں کی. بادشاہ نے پھر انہیں دین چھوڑنے کی بات کی مگر انہوں نے پھر دین بدلنے سے انکار کر دیا، تیر اس بار ان کے دونوں پاؤں کے درمیان میں لگا، اس دفع بادشاہ کو لگا کہ آپ کچھ خوف زدہ ہیں، اس نے چوتھی بار انہیں پھر دین بدلنے کے لئے کہا، مگر آپ نے پھر انکار کر دیا. اب بادشاہ کو اپنی بے عزتی برداشت نہیں ہوئی، اس نے ایک عجیب حکم دیا اس بار…..بہت ہی خوفناک اور وحشتناک حکم! “قیدی کو ایک بڑی دیگ میں کھولتے ہوۓ تیل میں ڈال دیا جائے. حکم کے مطابق ایک بڑے سے میدان میں آگ جلائی گئی اور دیگ میں تیل کھولا گیا. تیل کھولنے کے بعد بادشاہ نے نہایت سفاکی سے کہا، اس قیدی کی قوم کے دو افراد کو اس میں ڈال دیا جائے. سیدنا عبداللہ بن حذافہ کو پہلی بار پریشانی ہوئی، ان کے چہرے پر پریشانی اور خوف کے آثار اب نظر آ رہے تھے، وہ اپنے ساتھیوں کے انجام سے خوفزدہ تھے، وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ بادشاہ ان کو ڈرا رہا ہے لیکن اب انہیں خدشہ ہوا کہ سچ میں بادشاہ ایسا نہ کردے، ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ بادشاہ کے دل دھلا دینے والے الفاظ سنائی دئے “ان قیدیوں کو اس تیل میں ڈال دیا جائے” حکم کی فورا تعمیل ہوئی. ان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا. دونوں مجاہد چشم زدن میں زندگی سے آزاد ہو گئے . بادشاہ نے پھر پوچھا کہ اب تجھے آخری موقع دے رہا ہوں اب بھی چھوڑ دے اپنے دین کو. اس بار بھی ان کا انکار سن کر بادشاہ نے انہیں بھی دیگ میں پھینک دینے کا حکم دیا. سپاہی انہیں گھسیٹتے ہوۓ دیگ کے قریب لے آئے، بادشاہ اور درباریوں نے عجیب منظر دیکھا…..وہ دیکھ رہے تھے کہ آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے.بادشاہ سمجھا کہ آپ موت کے خوف سے رو رہے ہیں، اس نے سپاہیوں کو روک دیا، درباری بھی حیران ہو کر ایک دوسرے سے کہ رہے تھے کہ دیکھو قیدی رو رہا ہے، وہ دردناک موت کا تصور کر کے رو رہا ہے، بادشاہ نے کہا، آخر تمنے اپنا فیصلہ بدلنے کا ارادہ کر ہی لیا ہے. تم اعلان کرو کہ تم میرا دین قبول کرتے ہو. آپ کے جواب سے نہ صرف بادشاہ بلکہ درباری بھی حیران رہ گئے، نہیں اے ظالم بادشاہ، میں تمہارا مذھب ہر گز قبول نہیں کرونگا، تو پھر تم رو کس بات پہ رہے ہو؟ آپ نے کہا اے احمق بادشاہ میں موت کے خوف سے نھے رو رہا ہوں میں تو اس حسرت پی رو رہا ہوں کہ کاش میرے پاس ایک لاکھ جانیں ہوتیں اور میں ہرجان اس کھولتے ہوئے تیل میں ڈال کر خدا کی راہ میں قربان کر دیتا، مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس ایک ہی جان ہے. بادشاہ سمیت تمام درباریوں پر موت کی سی خاموشی طاری ہو گئی، بادشاہ نے پھر ایک عجیب بات کہی، کہنے لگا ، اے قیدی اگر تم میرا سر چوم لو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا. حضرت عبدللہ نے بے یقینی سے دیکھا اورپوچھا، میرے ساتھیوں کو بھی چھوڑ دو گے؟ ہان میں تمھارے ساتھیوں کو بھی چھوڑ دوں گا. تب ان کے سامنے پھر قران کی آیات آ گئیں، ترجمہ: “جس نے کسی کو قتل کیا، اس کے بغیر کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو اس نے گویا سب انسانوں کو قتل کیا. اور جس نے کسی ایک کو بچایا اس نے گویا سب انسانوں کو بچا لیا.” (٣٢:٥ ) ” پھر جو بھوک سے مجبور ہو کر کوئی حرام چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہو تو الله بخشنے والا ہے، وہ سراسر رحمت ہے”-(مائدہ ٣ ) حضرت عبدللہ سمجھ گے تھے کہ بادشاہ بزدل ہے اور اس نے اپنی کمزوری کو چھپانے کے لئے یہ بے تکی شرط رکھی ہے،بادشاہ نے اپنی شکست کے بعد اب بھرے دربار میں اس کا سر چوم کے اس کی عزت اور اپنی ذلت کا اظھار کرنے کے لئے یہ بے تکی شرط رکھی ہے. آپ نے سوچا کہ اگر میں نے بادشاہ کی یہ بے تکی ضد مان لی تو اس سے میرے دین پر کوئی حرف نہیں آئے گا.مگر میرے ساتھیوں کی قیمتی جانیں بچ جائیں گی. یہ سوچ کر انہوں نے بادشاہ کا سر چوم لیا.بادشاہ نے فورا انہیں اور ان کے ساتھیوں کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا. خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ مسجد نبوی میں بیٹھے تھے. سیدنا عبدالله بن حزافہ ان کے سامنے بیٹھے تھے. انکی زبانی سارا واقعہ سننے کے بعد بولے: اے عبدالله بن حزافہ تم پر ہزاروں رحمتیں نازل ہوں-“.. حضرت عمر نے اعلان کیا کہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ آگے بڑھ کر حضرت عبدالله کا سر چوم لے اورآپ نے بڑھ کر سب سے پہلے ان کے سر پر بوسہ دیا، حضرت عبدللہ ان صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے آغاز اسلام میں ہی دین قبول کر لیا تھا.