aurat ki mohabbat

شریف زادی سے بازارِ حسن تک کا صفر…

معاشرے میں عورت کا مقام

خالدہ کی شادی کو چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا. ایک رات اس کا شوہر مختار رات کو دیر سے گھر آیا تو خالدہ نے دیکھا کہ والد نشے میں تھے اور ان کے بالوں میں گلاب کے پھولوں کی چند مرجھائی ہوئی پتیاں تھیں. خالدہ نے مختار سے پوچھا آپ کہاں سے ائے ہیں ایسی حالت میں؟ مختار کو خالدہ کا پوچھنا برا لگا اور اس نے اس کو دھکا دے دیا اور اپنے بستر پر آکر لیٹ گیا. خالدہ نے کہا کہ مجھے لگتا ہے آپ کسی پھولوں بھرے بستر سے اٹھ کر ائے ہیں؟ مگر مختار نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور کروٹ لے کر سو گیا. خالدہ رات بھر روتی رہی، صبح اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں. مختار نے اس سے کوئی بات نہیں کی نہ ہی یہ دیکھا کہ اس کی آنکھیں رات بھر رونے سے سوجی ہوئی ہیں. خالدہ اس بات سے بہت دکھی تھی. اس کا دیور مختار کے بارے میں کچھ پوچھنے اس کے کمرے میں آیا تو اس نے اس کی سوجی آنکھیں دیکھ کر پوچھا، بھابھی کیا آپ روئی ہیں؟ خالدہ تو ویسے ہی بہت دکھ تھی اس نے یوں نرمی سے دیور کو پوچھتے دیکھا تو وہ رو پڑی اور مختار کے بارے میں سب کچھ بھائی کو بتا دیا. خالدہ کے دیور نے بھابی کی ہمت بندھائی اور کہا میں آپ کو بھائی کے اس معاملے کی کھوج لگا کر ضرور بتا دوں گا کہ وہ کہاں جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟ دیور نے آخر کار معاملے کی کھوج لگا لی کہ اس کا بھائی کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے.

بات دراصل یہ تھی کہ مختار ایک دولتمند آدمی تھا اور وہ کسی بازاری عورت کے عشق میں پڑ گیا تھا اور وہ اسی سے شادی کرنا چاہتا تھا مگر مختار کی ماں ایک بازاری عورت کو اپنی بہو بنانے کے لئے بلکل راضی نہ تھی انہوں نے مختار کی شادی اپنے ایک کزن کی بیٹی خالدہ سے کردی خالدہ ایک غریب گھر سے تعلق رکھتی تھی.مختار کی ماں تو خوش تھی کہ وہ اپنی پسند کی لڑکی کو بہو بنا کر لے آئیں ہیں مگر مختار اس شادی سے خوش نہیں تھا. خالدہ کو جب اس کے دیور نے بھائی کے متعلق ساری تفصیل بتا دی اور لڑکی کا نام بھی بتا دیا تو خالدہ نے اپنے شوہر سے بات کی، خالدہ نے مختار سے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ آپ گلناز نامی بازاری عورت کے عشق میں گرفتار ہیں اور اگر آپ کو اس سے اتنی ہی محبت تھی تو آپ مجھ سے شادی نہ کرتے اب میں امید سے ہوں اور چاہتی ہوں کہ آپ اپنے قدم اس گند خانے کی طرف جانے سے روک لیں یہ ہمارے آنے والے بچے کے لئے اچھی بات نہیں ہوگی. اور ایک شریف زادی اور بازاری عورت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے آپکی بیوی ہی آپ کے پیار کی مستحق ہے. مختار نے ساری بات سننے کے بعد کہا میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا مگر امی نے مجھے اس شادی کے لئے مجبور کیا تھا اور تمنے تو وعدہ کیا تھا مجھے میری برائیوں کے ساتھ اپناؤ گی. خالدہ نے کہا آپ بس اس جگہ جانا چھوڑ دیں باقی آپ کی سب برائیاں قبول ہیں. خالد نے کہا کہ میں تمہیں تو چھوڑ سکتا ہوں مگر وہاں جانا نہیں چھوڑ سکتا اور تم جو اتنی شریف زادی ہو تو تمہیں اس بازار سے متعلق اتنی سب باتیں کیسے پتا ہیں؟ خالدہ اس سوال پر خاموش ہو گئی کیونکہ اس کے دیورنے اسے کہا تھا کہ بھابی بھائی کو میرا نام نہیں بتانا کہ یہ سب معلومات میں نے آپکو دی ہیں ورنہ بھائی بہت ظالم ہیں مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے. لیکن مختار کتنا ظالم ہے اس بات کا اندازہ جب ہوا کہ جب اس نے چھوٹے بھائی سے کہا کہ اس کو اس کے باپ کے گھر چھوڑ آؤ. خالدہ کی ساس اور دیور سمجھے کہ وقتی غصہ ہے چند دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا تو بلا لے گا بیوی کو. مگر ایسا نہ ہوا مختار تو خالدہ سے جان چھڑانے کا بہانہ ڈھونڈ رہا تھا. وہ نہ خود بیوی کو لینے گیا اور گھر والوں کو بھی منع کر دیا کہ خبردار اگر کوئی اسے لایا تو وہ اسے بھی گھر سے نکال دے گا. خالدہ کے باپ پر تو قیامت ٹوٹ پڑی اور جب وہ مختار سے بات کرنے ائے تو اس نے سسر کو بھی یہ کہ کر دھتکار دیا کہ وہ ایسی عورت سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے جس کو اس بازار کے بارے میں اتنی معلومات ہوں کہ وہ ان کے نام تک بھی جانتی ہو.

آخر مختار نے خالدہ کو طلاق دے دی لیکن خالدہ نے دیور کا نام نہیں لیا. خالدہ کا دیور اشفاق ایف ایس سی کا طالب علم تھا. اور اپنے بھائی کے ٹکڑوں پر پل رہا تھا. اس کا مستقبل تباہ ہو جاتا اور خود اشفاق نے بھی اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی بھائی کو سچ بتانے کی ہمت نہیں کی. خالدہ نے ایک بیٹی کو جنم دیا مگر مختار نے ایک بار بھی بیٹی کی شکل نہیں دیکھی. جب مختار کی ماں کا انتقال ہو گیا تو اس نے اس بازاری عورت سے شادی کر لی. دو سال کے بعد خالدہ کے باپ نے اس کی بھی شادی ایک غریب مگر نیک انسان سے کرا دی جس نے ساری حقیقت جانتے ہوۓ خالدہ اور اس کی بیٹی کو دل سے قبول کیا اور ایک سگے باپ کی طرح بیٹی کی تربیت کی اس نے کبھی اس کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ اس کا سگا باپ نہیں ہے. خالدہ کی بیٹی رابعہ سولہ سال کی تھی جب اس کے باپ نے اس کی شادی اپنے بھانجے سے کر دی. اور ایک سال بعد اس کا انتقال ہو گیا. رابعہ کی ساس اپنی بھابھی یعنی خالدہ سے بہت جلتی تھی بھائی کی زندگی میں تو وہ کچھ کر نہ سکی مگر اس کے انتقال کے بعد اس نے اپنے پر نکال لئے. اس نے رابعہ پر سختی سے پابندی لگا دی تھی کہ نہ وہ ماں سے ملنے جائے گی اور نہ خالدہ اس سے ملنے آسکتی ہے. رابعہ ماں سے ملنے اس کی وفات پر ہی گئی. رابعہ کا اب شوہر کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا اور اس کا شوہر بھی بہت نیک انسان تھا مگر رابعہ کی نند اچھے کردار کی لڑکی نہیں تھی. رابعہ کی ساس سارا دن محلے پڑوس میں پھرتی تھی اور اس کی بیٹی محلے کے ایک لڑکے کو گھر میں بلا کر اس سے باتیں کرتی رہتی تھی. رابعہ نے یہ بات گھر میں کسی کو نہیں بتائی تھی کہ اسے ڈر تھا کہ اگر اس نے منہ کھولا تو اس کا جینا دوبھر ہو جائے گا اس نے سوچا جو جیسا کرتا ہے ویسا بھرتا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ اکثر برائی کرنے والا تو بچ جاتا ہے مگر چھپانے والا پھنس جاتا ہے.

ایک روز دوپہر کا وقت تھا رابعہ کچن میں کھانا بنا رہی تھی کہ اس کی نند بھاگی آئی کہ بھابی مجھے چھپا دو ابا اور بھائی آگئے ہیں، رابعہ نے اسے اپنے کمرے میں چھپا دیا اور وہ خود بیٹھک کی طرف گئی تو دیکھا کہ اس کا شوہر اور سسر ایک لڑکے کو مل کر مار رہے ہیں وہ یہ نظارہ دیکھ کر خوف زدہ ہو گئی. سسر اور شوہر نے اب رابعہ کی طرف رخ کیا اور پوچھا کہ تم سارا دن گھر پر ہوتی ہو تمہیں نہیں پتا کہ گھر میں کیا ہو رہا ہے اور تم نے کہا چھپایا ہے کرن کو؟ وہ رابعہ کے کمرے میں الماری کے پیچھے چھپی ہوئی تھی انہوں نے اسے ڈھونڈ نکالا اور گھسیٹتے ہوۓ باہر لائے اور پوچھا کہ تجھے یہاں کس نے چھپایا ہے؟ کرن نے ہاتھ کا اشارہ رابعہ کی طرف کیا اب تو وہ سب رابعہ پر برس پڑے کہ تمہیں سب پتا تھا تم نے نہیں بتایا، ساس نے بھی کہا کہ اور کسی کو نہ بتاتی مجھے تو بتا دیتی میری بچی کو خراب کرنے میں اس کا ہاتھ ہے، ساس نے رابعہ کو گھر سے نکلوا دیا. رابعہ نے بہت منت سماجت کی کہ مجھے گھر سے نہ نکلواؤ میں اب کہا جاؤں گی میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے مگر کسی نے اسکی ایک نہ سنی. رابعہ جیسے کیسے کر کہ اپنے ماموں کے ہان لاہور چلی گئی مگر جب ممانی نے اس کی کہانی سنی تو کہنے لگی، دو چار دن کی بات ہوتی تو انسان برداشت بھی کر لیتا ہے مگر یہاں تو عمر بھر کی بات تھی کون بھرے گا ساری عمر، شریف زادی ہوتی توایسے کون نکالتا ضرور کوئی بات تو دیکھی ہوگی انہوں نے جو گھر سے نکالا ہے. اپنے باپ کے پاس چلی جاؤ. مجھے اپنی ماں کے سگے بھائی سے یہ امید نہیں تھی میں نے ماموں سے کہا آپ جا کر میرے سسر اور شوہر سے بات کریں تو جب تک میں یہاں ہی رہونگی مگر ممانی نے کہا اپنے باپ کے گھر کیوں نہیں جاتی. میں نے کہا کہ مجھے نہیں پتا کہ وہ کہاں رہتے ہیں تب ماموں نے کہا کہ آؤ میں اس کے گھر تمہیں چھوڑ آتا ہوں اور مجھے میرے باپ کے دروازے پر چھوڑ کر ایسے بھاگے جیسے جان چھڑانا چاہتے ہوں مجھ سے. دنیا کا پتا تو باہر نکلنے سےچلتا ہے میں نے سوچا تھا کہ باپ تو باپ ہوتا ہے وہ کسی کے لئے کتنا بھی ظالم ہو مگر اولاد کی محبت تو ہوتی ہی ہے اس کے دل میں. گھر میں داخل ہوئی تو سامنے سوتیلی ماں بیٹھی تھیں پوچھنے لگی کون ہو. میں نے اپنا نام بتایا کہ میں خالدہ اور مختار کی بیٹی ہوں جسکو میرے باپ نے طلاق دے دی تھی . کہنے لگی کہ کیا جائیداد میں حصہ لینے آئی ہو میں نے کہاں نہیں اتنے میں میرا باپ بھی ساتھ کے کمرے سے نکل آیا باہر آکر پوچھنے لگا کہ کون ہے؟ میں نے کہا بابا جان اپ مجھے کیسے پہچانے گیں آپ نے تو کبھی مجھے دیکھا بھی نہیں. وہ کہنے لگے مجھے کیا پتا کہ تم میری اولاد ہو بھی کہ نہیں جب مجھے یہی نہیں پتا تو میں کیسے آتا دیکھنے. انکی یہ بات میرے دل پر لگی کہ وہ اپنی ہی اولاد کو پہچان نہیں پا رہے ہیں. انہوں نے میرے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے مختصر ساری بات بتا دی، سوتیلی ماں نے کہا آج کی رات رہ لو یہاں کل تمھارے رہنے کا بندوبست کر دونگی. وہ رات میں نے اپنے ہی باپ کے گھر اجنبیوں کی طرح گزاری. صبح میرے اٹھنے سے پہلے ہی میرا باپ چلا گیا تھا. سوتیلی ماں کے پاس ایک بوڑھی عورت آئی اور اس نے کہا کہ کہا ہے وہ لڑکی جس کو تم رکھنا نہیں چاہ رہی ہو اپنے گھر میں. سوتیلی ماں نے مجھے بلایا اور کہا کہ تم ان کے ساتھ چلی جاؤ یہ رکھیں گی تمہیں اپنے گھر میں، میں اور تمہارا باپ تمہیں دیکھنے کے لئے آتے جاتے رہیں گے. تم ان کی خدمت کرنا. اس بوڑھی عورت نے جب مجھے گلے لگایا تو مجھے بھی کچھ ڈھارس ہوئی. وہ بوڑھی عورت ایک بہت بڑی کوٹھی میں رہتی تھی میرا علاوہ دو لڑکیاں اور تھیں وہاں پر وہ بھی میری طرح ہی بےبس تھیں. بوڑھی عورت نے کہا تم خالدہ کی بیٹی ہو نہ جس کو تمھارے باپ نے میری بیٹی کی وجہ سے طلاق دے دی تھی اور میری بیٹی کو بھی مجھسے چھین لیا تھا. مجھے سر چھپانے کے لئے چھت تو ملی تھی مگر آبرو مندانہ نہیں یہ بوڑھی عورت لڑکیوں کی آبرو بینچ کر اپنا گزارہ کرتی تھی . اس بازار میں رہنے والی عورت کو برا کہنے والوں سے میں یہ پوچھنا چاہتی ہو کہ اس بازار میں عورت کو پہچانے والا کون ہے کون ہے اس کا ذمہ دار.

error: Content is protected !!