افلاطون نے ایتھنز میں ایک اکیڈمی کا آغاز کیا جہاں وہ امیروں کے بچوں کو تعلیم دینے لگا کچھ عرصے کے بعد جب اکیڈمی میں بچوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو اس نے وہاں کام کرنے کے لئے ایک لڑکا رکھ لیا. یہ لڑکا اٹھارہ سال کا تھا یہ لڑکا اپنا کام کر کے باہر چلا جاتا تھا اور پھر افلاطون طلبہ کو تعلیم دیتا تھا. وہ لڑکا باہر بیٹھا کرتا تھا مگر وہ اندر سے ساری باتیں سنتا رہتا تھا دو ماہ کے بعد جب افلاطون کی کلاس کا نصاب ختم ہو گیا تو ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا. اس تقریب میں شہر کے عالم فاضل اور طلبہ کے والدین بھی شریک تھے. اس تقریب میں ہوتا یہ تھا کہ جماعت کا ہر طالب علم نصاب میں شامل کسی ایک موضوع پر کچھ جملے کہتا تھا اور پھر لوٹ جاتا تھا
افلاطون اس بات پر بہت حیران تھا کہ اس کے شاگردوں میں سے کسی نے بھی اچھی طرح کسی بھی موضوع پر بات نہیں کی تھی اس کو بہت افسوس تھا اس بات پر اچانک خدمتگار لڑکا اس کے پاس آیا اور اس سے کچھ کہنے کی اجازت مانگی مگر افلاطون نے کہا کہ میں نے تو تمہیں کبھی کوئی لیکچر نہیں دیا تو تم کیسے بول سکتے ہو یہ کہ کر اس نے اسے منع کر دیا. لڑکے نے کہا کہ میں نے پورے دو ماہ اپکا لیکچر دروازے کے باہر بیٹھ کر سنا ہے. لڑکے کی بات سں کر افلاطون نے اس کو مجمع کے سامنے بولنے کی اجازت دے دی. لڑکا بولنا شروع ہوا تو آدھے گھنٹے تک اس نے علم کی فضیلت پر لیکچر دیا اس کے بولنے کے انداز پر سارا مجمع دنگ رہ گیا تقریر بڑی مدلل اور متاثر کن تھی جب لڑکا اپنی تقریرمکمل کر چکا تو افلاطون پھر ڈائس پر آیا اور حاضرین کو مخاطب کر کے بولا آپ جان چکے کہ میں نے پوری محنت سے طلبہ کو تعلیم دی ہے اور دوران تدریس کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی ہے. کمی میرے شاگردوں میں ہی تھی جو وہ علم کو نہ پاسکے. اس لڑکے میں علم کی چاہ تھی اس لئے وہ سب پانے میں کامیاب ہو گیا جو میں اپنے شاگردوں کو سکھانا چاہتا تھا وہ سب اس نے سیکھ لیا
آج دنیا اس کو ارسطو کے نام سے جانتی ہے جس نے فلسفے سے لے کر سائنس تک میں اپنے نظریات سے دیرپا اثرات چھوڑے.