بانوقدسیہ کے ناول
وہ محبت کے ترازو میں برابر کا تلنا چاہتی تھی اور دوسری طرف مجھے کوئی ایسا بٹہ رکھنا نہیں آتا تھا جس کی وجہ سے اس کا توازن ٹھیک ہو جاتا۔ اگر میں آفتاب کو خوش ظاہر کرتا تو وہ تنفر کی صورت میں بے قابو ہو جاتی ، اگر میں اسے اداس ظاہر کرتا تو بے یقینی ، ناامیدی اور شدید غم تلے دب کر آہیں بھرنے لگتی، محبت کا آرا اوپر تلے برابر اس کے تختے کاتتا چلا جا رہا تھا۔
میں سوشیالوجی کے طالبعلم کی طرح سوچنے لگا کہ جب انسان نے سوسائیٹی کو تشکیل دیا ہو گا تو یہ ضرورت محسوس کی ہو گی کہ فرد علیحدہ علیحدہ مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتے، باہمی ہمدردی ، میل جول اور ضروریات نے معاشرہ کو جنم دیا ہو گا، لیکن رفتہ رفتہ سوسائٹی اتنی پیچ در پیچ ہو گئی کہ باہمی میل جول ، ہمدردی اور ضرورت نے تہذیب کے جذباتی انتشار کا بنیادی پتھر رکھا ۔ جس محبت کے تصور کے بغیر معاشرے کی تشکیل ممکن نہ تھی شاید اسی محبت کو مبالغہ پسند انسان نے خداہی سمجھ لیا اور انسان دوستی کو انسانیت کی معراج ٹھہرایا،
پھر یہی محبت جگہ جگہ نفرت حقارت اور غصے سے زیادہ لوگوں کی زندگیا سلب کرنے لگی ، محبت کی خاطر قتل ہونے لگے ، خود کشی وجود میں آئی، سوسائٹی اغوا سے شبخون سے متعارف ہوئی ، رفتہ رفتہ محبت ہی سوسائٹی کا ایک بڑا روگ بن گئی ، اس جن کو ناپ کی بوتل میں بند رکھنا معاشرے کے لیے ممکن نہ رہا ، اب محبت کے وجود یا عدم وجود پر ادب پیدا ہونے لگا ، بچوں کی سائیکالوجی جنم لینے لگی ، محبت کے حصول پر مقدمے ہونے لگے ، ساس بن کر ماں ڈائن کا روپ دھارنے لگی ، معاشرے میں محبت کے خمیر کی وجہ سے کئی قسم کا ناگوار بیکٹیریا پیدا ھوے۔