سنو ! جب میں مر جاؤں تو مجھے کنٹربری کے قبرستان میں دفنا دینا“
اُس کے منہ سے موت کا یہ پیغام سُن کر مجھے بڑا شدید دھچکا لگا لیکن میں نے اُس کی بات نہ کاٹنے کا وعدہ کر رکھا تھا ۔اس لئے بلکل خاموش رہا۔
وہ بولتی گئی ۔۔” یہ شہر مجھے پسند ہے ۔یہاں کے اسپتال نے مجھے بڑا آرام دیا ہے ۔یوں بھی اس شہر پر مجھے حضرت مریم کا سایہ محسوس ہوتا ہے ،یہاں پر تمہیں بھی کچھ محسوس ہوتا ہے یا نہیں !!!!!!! ؟
اُس نے منہ اُٹھا کر میری طرف دیکھا ۔میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ رہا تھا ۔اُس نے اپنے جامنی رنگ کے ڈوپٹے کے پلّو سے میرے آنسو پونچھے اور بے حد غیر جذباتی انداز میں اپنا سلسلہ کلام جاری رکھا ،اس ملک میں ہر شخص اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے ،اس لئے میرے جنازے پر کسی کو نہ بُلانا ۔یہاں پر تم ہو ،ثاقب ہے،خالد ہے ،زہرہ ہے ،آپا عابدہ ہیں ،خالد کے گھر چند مسلمان ڈاکٹر دوست ہیں ۔۔۔ ۔۔بس اتنا کافی ہے ! “
اب میں سنبھل کر بیٹھ گیا ، بزنس آخر بزنس ہے !!!!!
میں نے کہا ،جرمنی سے تنویر احمد خاں اور پیرس سے نسیم انور بیگ شائد آجائیں۔ان کے متعلق کیا حکم ہے ؟؟؟؟؟؟
وہ آجائیں تو ضرور آجائیں ، اُس نے اجازت دے دی ۔وہ بھی تو اپنے ہی لوگ ہیں،لیکن پاکستان سے کوئی نہ آئے !!!!!!
وہ کیوں ؟؟؟؟ میں نے پوچھا ۔
وہ بولی ، ایک دو عزیز جو استطاعت رکھتے ہیں ضرور آجائیں گے لیکن دوسرے بہت سے عزیز جن میں آنے کی تڑپ تو ہے لیکن آنہیں سکتے ،خواہ مخواہ ندامت سی محسوس کریں گے ۔ ٹھیک ہے ناں ؟؟؟؟ “
میڈم ! آپ کا اشارہ سر آنکھوں پر ! میں نے جھوٹی ہنسی سے کہا ۔
اور کوئی ہدایت ؟؟؟؟؟؟
میری قبر کے کتبے پر لاالہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ ضرور لکھوانا ۔“
ضرور ۔۔۔ ۔۔ ! “ میں نے کہا ۔
اور کوئی حکم۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ؟؟؟؟؟؟
ہاں ! ایک عرض اور ہے ! ۔۔۔ ۔۔۔ اُس نے کہا ۔۔۔ ۔۔۔
اپنے ہاتھوں کے ناخن بھی خود کاٹنا سیکھ لو ۔دیکھو اس چھوٹی سی عمر میں ثاقب کیسی خوبی سے اپنے ناخن کاٹ لیتا ہے ! تم سے اتنا بھی نہیں ہوتا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
یہ کہہ کر وہ اُٹھی اپنا پرس کھولا ،ایک چھوٹی سی قینچی نکالی اور بولی لاؤ ، آج میں پھر تمہارے ناخن تراش دوں ۔“
اُس نے میرے ناخن کاٹے ۔اُس آخری خدمت گزاری کے بعد وہ میرے گلے میں بانہیں ڈال کر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگی ۔مجھے اچھا تو بڑا لگا ،کیونکہ اس سے پہلے ہم برسرِعام اس طرح کبھی نہ بیٹھے تھے لیکن اُس کی باتوں میں الوداعیت کا جو پیغام چھلک رہا تھا اُس نے مجھے بے تاب کردیا۔
میں نے کہا ! میڈم اُٹھو !!!!! ہمارے ارد گرد جو بے شمار بچے کھیل کود رہے ہیں ،وہ کیا سمجھیں گے کہ یہ بڈھا بڈھی کس طرح کی عاشقی میں مبتلا ہورہے ہیں ؟؟؟؟ !!!!!!
وہ چمک کر اُٹھ بیٹھی اور حسبِ دستور مسکرا کر بولی ،یہ لوگ یہی سمجھیں گے ناکہ کوئی بوالہواس بوڑھا کسی چوکھری کو پھانس لایا ہے ۔کبھی تم نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی ہے ؟؟؟؟
ہاں ! روز ہی دیکھتا ہوں ، میں نے کہا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
اُس نے میرے بالوں میں اپنی انگلیوں سے آخری بار کنگھی کی اور بولی ” تمہارے بال کتنے سفید ہورہے ہیں ۔میں نے اتنی بار کہا ہے کہ مہینے میں کم از کم ایک بار کلر شیمپو کیا کرو لیکن تم میری کوئی بات نہیں مانتے ۔“
میں خاموش رہا۔۔۔ ۔۔۔
اُس نے مجھے گدگدا کر ہنسایا اور کہنے لگی ۔۔۔ ۔۔تمہیں ایک مزے کی بات سناؤں ؟؟؟
ضرور سناؤ۔۔۔ ۔۔میں نے کہا۔
وہ بڑے فخریہ انداز میں کہنے لگی ، کوئی دو برس پہلے میں نسیم انور بیگ کی بیگم اختر کے ساتھ آکسفورڈ اسٹریٹ شاپنگ کے لئے گئی تھی ۔وہاں اُس کی ایک سہیلی مل گئی ،اُس نے میرا تعارف یوں کرایا کہ یہ عفت شہاب ہے ۔یہ سُن کر اختر کی سہیلی نے بے ساختہ کہا ، ارے ! ہم نے تو سنا تھا شہاب کا صرف ایک بیٹا ہے۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ اُن کی اتنی بڑی بیٹی بھی ہے، دیکھا پھر !!!!!!!“
ہاں ہاں بیگم صاحبہ ! دیکھ لیا۔۔۔ ۔۔میں نے جھینپ کر کہا،پانچ بجنے کو ہیں ۔۔۔ ۔۔چلو ! طارق کی سالگرہ پر بھی تو جانا ہے۔
یہ ہمارا آخری انٹرویو تھا ۔اٹھارہ سال کی ازدواجی زندگی میں ہم نے کبھی ایک دوسرے کے ساتھ بیک وقت اتنی ڈھیر ساری باتیں نہ کی تھیں ،دوستوں ،یاروں اور عزیزوں کے ساتھ بیٹھ کر ہم کئی کئی گھنٹے ہی ہی،ہا ہا کر لیتے تھے لیکن اکیلے میں ہم نے اتنی دل جمعی کے ساتھ اتنے موضوعات پر کبھی اتنی طویل گفتگو نہ کی تھی ۔یہاں تک کے جب میں نے سی ۔ایس۔پی سے استفعی دیا ۔تو یوں ہی ایک فرض کے طور پر مناسب سمجھا کے اپنی بیوی سے بھی مشورہ کرلوں ۔جب میں نے اُسے بتایا کہ میں ملازمت سے مستفعٰی ہونا چاہتا ہوں تو وہ ثاقب کے اسکول جانے سے پہلے اُس کے لئے آملیٹ بنا رہی تھی ۔آملیٹ بنانے کا چمچہ ہاتھ سے چھوڑے بغیر اور میری طرف آنکھ اُٹھائے بغیر وہ بولی۔۔
اگر تمہارا یہی فیصلہ ہے ، تو بسم اللہ ! ضرور استفعٰی دے دو ۔
اُس کی اس شانِ استغنا سے جل کر میں نے شکایتی لہجے میں کہا ،بیگم صاحبہ ! آپ کی رضامندی کے بغیر میں ایسا قدم کیسے اُٹھا سکتا ہوں ؟ اور ایک آپ ہیں کہ کوئی توجہ ہی نہیں دیتیں۔
اُس نے چمچہ ہاتھ سے رکھ دیا اور میری طرف یوں پیار سے دیکھا جیسے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا پھر بولی ۔۔۔ ۔۔
ارے یار ! میں تجھے کیسے سمجھاؤں کہ جو تیری مرضی وہ میری مرضی ۔
مجھے یہ زعم تھا کہ میں خود فنا کی تلاش میں ہوں لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ عفت پہلے ہی اس مقام سے گزر چکی ہے ۔جب وہ تابوت میں لیٹی ہوئی تھی ،تو میں نے چپکے سے اُس کے سر پر آخری بار ہاتھ پھیر کر پیار کیا۔میرے اندر کے توہمات نے میرے سینے میں عجیب و غریب اُمیدوں کی موم بتّیاں سجا رکھی تھیں لیکن اُن میں سے کسی معجزے کی ایک بھی موم بتّی روشن نہ ہوئی۔وہ مر گئی تھی ! ہم نے اُسے قبرستان میں لے جا کر دفنا دیا۔
(قدرت اللہ شہاب)