ادھوری محبت
کریم بخش کے ساتھ اس کے بیٹے اور بہوئیں بیٹھے تھے اور انہوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ اپنے چچا سے صلح کر لیں گے یہ خاندانی لڑائی اب ختم ہو جانی چاہئے. کچھ عرصہ پہلے نثار اور کریم بخش کے خاندانوں میں جھگڑا ہو گیا تھا اور اس وجہ سے ان کا میل جول ختم ہو گیا تھا مگر اب نثار بیمار ہو گیا تھا اور بستر پر پڑا تھا تو اس کے دل میں اپنے بھائی کی محبت جوش مار رہی تھی اوراپنی زندگی کی ان آخری سانسوں میں وہ صلح کرنا چاہتا تھا. اس کے لئے اس نے اپنے ایک دوست کو کریم کے گھر صلح کا پیغام دے کر بھیجا تھا. کریم بخش اپنے خاندان کو لے کر نثار کے گھر پہنچ گیا اور یوں ایک بار پھر یہ خاندان مل گیا. کریم کے چار بیٹے تھے تین شادی شدہ تھے اور علی کی ابھی شادی ہونی تھی کریم نے علی کے لئے نثار کی بیٹی بسمہ کو پسند کیا تھا اور جب اس نے اپنی یہ خاھش اپنے گھر میں بتائ تو سب ہی اس شادی پر خوش تھے اور جب علی سے اس بات کا ذکر کیا گیا تو اس کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا کیوں کہ وہ اور بسمہ ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے اور اب انہیں اپنی محبت بلا کسی رکاوٹ کے مل رہی تھی. اگلے دن کریم نے جب نثار سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور اس طرح ان دونوں کا رشتہ طے ہو گیا. نثار کی بیماری کے بعد اس کا کاروبار اس کے سالے اصغر نے سنبھال لیا تھا اصغر کو جب دونوں بھائیوں کے صلح کی خبر ہوئی تو وہ بہت پریشان ہو گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نثار کے کاروبار میں ہیرا پھیری کرتا تھا اور اب اسکو یہ فکر ہو گئی تھی کہ اب کاروبار کریم بھی دیکھے گا تو کہیں اس کا بھید نہ کھل جائے. ایک دن اصغر اپنے ایک دوست کی دکان پر بیٹھا تھا کہ اس کی نظر دکان کے سامنے والے گھر پر پڑی وہاں اسے علی اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ کھڑا نظر آیا . وہ گھر ایک مشہور طوائف تارا بائی کا تھا اصغر نے اپنے دوست سے جب اس گھر کے بارے میں پوچھا تو اسے پتا چلا کہ تارا بائی نے وہ گھر بینچ دیا ہے اور علی کے بارے میں اس نے بتایا کہ یہ تو اکثر یہاں آتا رہتا ہے. اصغر کے شاطر دماغ نے فورا ایک منصوبہ بنا لیا اور اس نے اپنے اس گندے منصوبہ میں اپنے اس دوست کو بھی شامل کر لیا. گھر جا کر جب اصغر نے اپنے بہن بہنوئی کو علی کے بارے میں بتایا تو وہ سب بہت حیران ہوۓ کسی کو بھی اس کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا کہ علی کا کسی ناچنے والی کے کوٹھے پر آنا جانا ہے مگر اصغر نے نثار سے کھا کہ وہ کل اپنے بیٹے حمزہ کو میرے ساتھ بھیج دین وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لے. حمزہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ علی اپنے چند دوستوں کے ساتھ تارا بائی کے گھر آیا ہے اور وہ نشے میں ہیں. حقیقت جان کر سب کو بہت دکھ ہوا نثار بستر پر پڑا تھا اس نے اپنے بھائی کریم کو گھر بلا کر ساری بات بتانے کا فیصلہ کیا مگر اصغر نے بڑی صفائی سے اسے یہ سب کرنے سے روکا اور کہا کہ آپ اپنے گھر بلا کر یہ بات کریں گے تو یہ مناسب نہیں ہوگا میں خود جا کر بات کرتا ہوں اور پھر نثار نے اصغر پر ہی ساری بات چھوڑ دی. اصغر نے کریم کے گھر جا کر کریم سے کہا کہ بسمہ کالج میں کسی لڑکے کو پسند کرتی ہے اور وہ اس شادی کے لئے راضی نہیں ہے نثار بھائی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی آپ سے بات کرنے کی اس لئے انہوں نے آپ سے بات کرنے کے لئے مجھے بھیجا ہے. کریم بخش کا غصہ تو پورے خاندان میں مشھور تھا وہ یہ بات سن کر آگ بگولہ ہو گیا کہنے لگا نثار نے بیٹی کی گردن کیوں نہیں کاٹ دی ایسی بات سن کر میں خود جا کر اس سے بات کرتا ہوں، اصغر نے کہا بھائی صاھب آپ کے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر انہوں نے آپ کی بات ماننی ہوتی تو نثار بھائی صاھب خود آکر نہ آپ سے بات کرتے انہوں نے اس رشتے کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے. کریم بخش نے کہا تو ٹھیک ہے ہماری طرف سے بھی یہ رشتہ بھی ختم اور خاندانی تعلق بھی ختم. اور اصغر یہی سب تو چاہتا تھا گھر واپس آکر اس نے نثار کو بھی اس کے بھائی کی طرف سے بھڑکا دیا اور اس طرح پھر سے دونوں خاندانوں میں اختلاف پیدا ہو گیا. نثار نے بسمہ کا رشتہ ایک اچھے خاندان میں کر دیا. جب کریم کو بسمہ کی شادی کا پتا چلا تو انہوں نے بھی علی کے لیۓ لڑکی ڈھونڈنا شروع کر دی اور پھر جلد ہی اس کی بھی شادی کر دی. دونوں اپنے اپنے گھروں میں اپنے ماضی کو بھلا کر خوش تھے. علی کے تین بچے تھے اور اس کی بیوی روحی ایک پڑھی لکھی اور سلیقہ شعار تھی. بسمہ کا شوہر ہمایوں بھی ایک اچھی فیملی سے تعلق رکھتا تھا اور ایک اچھی پوسٹ پر تھا. علی ایک دن اپنی فیس بک پر پوسٹ دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظر بسمہ کی آئی ڈی پر پڑی اس نے بسمہ کی فیسبک ان کی تو اس کے شوہر اور بچوں کی تصویریں تھیں جس کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں بہت خوش ہے نہ چاہتے ہوۓ بھی علی نے بسمہ کو فرینڈ ریکوسٹ سینڈ کر دی اور اب وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اس نے کہیں غلط تو نہیں کیا اگر بسمہ نے ریجکٹ کر دی تو کیا ہوگا. ادھر بسمہ نے جب اپنی فیسبک پر علی کی ریکوسٹ دیکھی تو وہ بھی چونک گئی اس نے علی کی فیملی کی تصویریں دیکھیں وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور سمارٹ لگ رہا تھا بسمہ نے دیکھا تو وہ سوچنے لگی کہ اس کوٹھے والی عورت کا کیا بنا ہوگا کیا وہ اب بھی اس کے پاس جاتا ہوگا یا شادی کے بعد اس نے توبہ کر لی. بسمہ نے فرینڈ ریکوسٹ آیکسپٹ کرلی. علی نے اس کو مسج کیا کہ کیسی ہو؟ اس نے کہا کہ میں ٹھیک ہوں. علی نے کہا کہ تمہارا فیصلہ ٹھیک ہی تھا جو تمنے کیا ہے خوش لگ رہی ہو اپنی فیملی کے ساتھ. بسمہ حیران ہوئی اور کہنے لگی کہ کون سا فیصلہ؟
علی نے بتایا کہ اپنی شادی کے متعلق جو تم نے کیا تھا. بسمہ نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا تھا یا تم نے تارا بائی کے کوٹھے پر جانا شروع کر دیا تھا. علی بسمہ کی بات سن کر بہت حیران ہوا اور اس نے کہا کہ تمہارے ماموں اصغر نے بتایا تھا کہ تم کسی لڑکے کو پسند کرتی ہو اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہو. بسمہ یہ سن کر بہت حیران ہوئی اور کہنے لگی ماموں اصغر نے کہا تھا کہ تم کسی تارا بائی کے کوٹھے پر جاتے ہو؟ علی نے بتایا وہ گھر میرے دوست کے والد نے خریدا تھا میں اس کے گھر جاتا تھا. علی سمجھ گیا تھا کہ اس کے ماموں نے دونوں خاندانوں میں غلط فہمیاں ڈالی ہیں. علی نے بسمہ سے کہا میں تم سے ملنا چاہتا ہوں. بسمہ نے کہا، کل صبح گیارہ بجے امتیاز پلازہ آجانا. اگلی صبح وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے تھے، وہ گیارہ سال بعد مل رہے تھے علی نے بتایا کہ تارا بائی کا گھراس کے ایک دوست مظہر کے والد نے خرید لیا تھا اس کا مظہر کے گھر بہت آنا جانا تھا.بسمہ سمجھ گئی کہ یہ سب اس کے ماموں اصغر نے کیا تھا اب وہ بہت پچھتا رہے تھے کہ انہوں نے اس وقت کیوں آپس میں بات نہ کی. اب دونوں کے دل میں پھر سے پرانی محبّت جاگ اٹھی تھی علی نے بسمہ سے کہا وہ اس کے لئے سب کچھ چھوڑ دے گا مگر بسمہ نے کہا کہ وہ سوچ کر جواب دے گی. بسمہ کا شوہر ہمایوں کتابیں پڑھنے کا شوقین تھا وہ آفس سے گھر آنے کے بعد کتابیں پڑھتا رہتا تھا بسمہ کے دماغ میں علی کی باتیں گھوم رہیں تھی وہ بھی علی کے ساتھ رہنا چاہتی تھی بسمہ نے رات کو اپنے شوہر سے پوچھا کہ اگر ایک طرف میں ہوں ور دوسری طرف کتابیں ہوں تو آپ کس کا انتخاب کریں گے؟ ہمایوں نے کہا کتابوں کا، کیوں کے کتابیں میرا جنون ہیں اور تم میری ضرورت ہو، بسمہ کو یہ سن کر بہت دکھ ہوا ور اس نے علی کو میسج کیا کہ وہ بھی اس کے لئے سب کچھ چھوڑنے کے لئے تیار ہے. اگلی صبح علی نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ تیاری کر لے وہ ملتان جا رہے ہیں اور وہ تین دن کے بعد ائے گا. ملتان کا نام سن کر روحی بہت خوش ہوئی کیوں کے وہ چھ ماہ کے بعد جا رہے تھے. ادھر بسمہ سے ہمایوں نے پوچھا کہ کیا وو اسے بازار سے کچھ چیزیں لا کر دے سکتی ہے؟ بسمہ نے کہا، مجھے چیزوں کی لسٹ بنا دو میں لا دیتی ہوں ہمایوں نے اس کو لسٹ بنا دی بسمہ نے دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے؟ ہمایوں نے کہا کہ آج اس کا کھانا بنانے کا ارادہ ہے بسمہ نے لسٹ لی اور بازار چلی گئی ایک گھنٹے بعد وہ واپس آئی تو ہمایوں نے اس کوجوس کا گلاس پیش کیا بسمہ کو حیرانی ہوئی کہ آج وہ گیارہ سال پہلے والا ہمایوں تھا جو اس کے لئے کھانا بناتا تھا مگر پھر آہستہ آہستہ وہ کتابوں میں گم ہونے لگا وہ جوس لے کر اپنے کمرے میں گئی تو اس نے دیکھا کہ وہاں کوئی بھی کتاب نہیں تھی وہ سٹڈی روم میں گئی تو وہاں بھی کوئی کتاب نہیں تھی وہ بہت حیران ہو رہی تھی کہ ہمایوں آگیا اور کہنے لگا کہ تمنے جب رات کو مجھسے پوچھا کہ میں کتابوں اور تم میں سے کس کا انتخاب کروں گا تو میں نے جواب تو دے دیا کہ کتابوں کو، لیکن بعد میں میں بہت بے چین ہوا اور سوچنے لگا کہ تم سارا دن میرا اور بچوں کا کتنا خیال رکھتی ہو ہماری ضرورت کا اور ہماری خوشی کا لیکن ہم تمہیں بدلے میں کیا دے رہے ہیں اس لئے میں نے تمہیں بازار بھیج کر وہ ساری کتابیں کباڑیے کو دے دیں اور آج میں تمہاری پسند کا کھانا بنا رہا ہوں آج سے ہم دونوں ایک دوسرے کی ضرورت کا خیال رکھیں گے. یہ سب سن کر بسمہ اپنے کمرے میں آگئی اور اس نے علی کو مسج کیا کہ وہ اپنی زندگی میں بہت خوش ہے اور وہ اپنا فیس بک اکاونٹ بھی ختم کر رہی ہے وہ اس کی زندگی میں دخل نہ دے. علی نے جب یہ میسج دیکھا تو اس نے روحی سے کہا وہ اس کی بھی پیکنگ کر دے وہ بھی ان کے ساتھ جا رہا ہے اور وہ خوب گھومیں گے…..