مولانا طارق جمیل
ایک بار ایک غریب آدمی حضرت موسیٰ کے پاس آیا اور آپ سے اپنی پریشانی کے بارے میں عرض کرنے لگا: اے موسیٰ آپ کلیم الله ہیں آپ الله سے عرض کریں کہ وہ میرا رزق بڑھا دے. حضرت موسیٰ نے اس کے کہنے پر الله کے حضور اس کی یہ درخواست پیش کی. الله پاک نے فرمایا، اس سے کہو اس کے نصیب میں اتنا ہی رزق لکھا ہے جو اسے ملتا رہے گا. آپ نے اس کو بتا دیا کہ تمھارے نصیب میں اتنا ہی رزق لکھا ہے. اس نے کہا، پھر آپ الله سے کہو وہ مجھے میرے نصیب میں جتنا رزق لکھا ہے ایک ہی بار میں دے دے، آپ نے اسکو سمجھایا کہ دیکھو ایسا ممکن نہیں ہے، اگر ایک ہی بار میں سارا لے لو گے تو پھر باقی زندگی کیسے گزارو گے.
وہ غریب آدمی بضد تھا کہ آپ اس کی یہ بات الله تک پہنچا دو، آپ نی اس کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن جب وہ نہ مانا تو آپ نے الله تک اس کی بات پہنچا دی، (حالانکہ الله ہر بات سے باخوبی واقف ہے) الله نے اس کی یہ بات مان لی اور اسے ساری زندگی کا رزق ایک ہی بار میں دے دیا. جب اسکو رزق ملا اس نے احساس ہوا کہ باقی غریبوں کا بھوک سے کیا حال ہو گا. یہ سوچ کر اس نے غریبوں میں اعلان کر دیا کہ جو بھی مفلس ہو، جس کو بھی کھانا نہ ملتا ہو وہ میرے پاس سے آکر کھانا کھا لے. غرض اس نے لنگر خانہ کھول دیا، غریب اور مفلس آتے رہے اور وہ دل کھول کر ان کو کھلاتا رہا.
ایک ہفتے کے بعد حضرت موسیٰ اس کے گھر کے سامنے سے گزرے تو اس کا لنگر خانہ ویسے کا ویسے ہی غریبوں اور مفلسوں سے بھرا پڑا تھا، آپ واپس آ گئے. پھر آپ ایک مہینے کے بعد اس کے گھر آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کا گھر اب بھی غریبوں اور مفلسوں سے بھرا ہوا تھا لوگ آتے اور پیٹ بھر بھر کے کھا کر جا رہے تھے. آپ دو مہنیے کے بعد وہاں سے گزرے تو بھی بدستور وہی حالت کہ لنگر کھانا بھرا پڑا تھا، آپ بہت حیران ہوۓ اور الله سے پوچھا کہ یا مالک، یہ کیا ماجرا ہے؟ الله پاک نے فرمایا، یہ الله کا اصول ہے کہ جو اسکی راہ میں خرچ کرتا ہے اس کا رزق کبھی تنگ نہیں ہوتا اور میں اسے اپنے غیبی خزانوں میں سے اس کو نوازتا ہوں.
اس نے جب اپنے رزق کے تنگ ہونے کے باوجود بھی غریبوں کی مدد کرنے اور انہیں کھلانے سے خود کو نہیں روکا تو الله تعالی جو سرے جہانوں کا مالک ہے وہ کیسے اپنے بندے کا رزق بند کر دیتا. اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ جو اپنے رزق میں وسعت چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنے مال میں غریبوں کو بھی شامل کر لیا کرے…