ہمیں چھینک کیوں آتی ہے؟
چھینک ایک ایسا عمل ہے جس کو آنے سے روکا نہیں جاسکتا ، اور ماہرین کے مطابق چھینک کو روکنا بھی نہیں چاہئے چھینک کا آنا پھیپھڑوں کے لئے بہت مفید ہے. اکثر افراد کو چھینک ایک مرتبہ میں ایک بار ہی آتی ہے، کچھ کو ایک ہی سانس میں دو یا تین بار بھی چھینک آتی ہے. ناک میں گرد یا پالتو جانور کے بال چلے جانے سے چھینک آتی ہے. چھینک کا آنا ایک اعصابی ردعمل ہے جس پر ہمیں کچھ زیادہ اختیار نہیں ہے. پھیپھڑوں کے علاوہ بھی چھینک آنا صحت کے لئے اچھا سمجھا جاتا ہے.
الرجی یا مٹی ناک میں گھستی ہے، اور ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں ناک کی رطوبت کے پانچ ہزار قطرے سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے خارج کر دیتی ہے. یہ خارج ہونے والے ذرات لگ بھگ تیس فٹ تک سفر کر سکتے ہیں اور ہوا میں دس منٹ تک رہ سکتے ہیں جو کہ وہاں سے گزرنے والے کے لئے نزلہ زکام کا خطرہ پیدا کر دیتے ہیں. ہمارا جسم اتنی زیادہ تعداد میں جراثیم خارج کرنے پر تو برا نہیں مناتا ہے مگر اسے دیکھنا بظاہر پسند نہیں ہے، لیکن اگر چھینک کے دوران آنکھیں کھلی رہیں تو کیا ہوگا؟
اس کا جواب واشنگٹن ٹاؤن شپ میڈیکل فاؤنڈیشن امریکہ کے ماہرین نے دیتے ہوۓ بتایا کہ جب چھینک آتی ہے تو اس کے لئے آنکھوں کے اردگرد کے حصے کے مسلز حرکت میں آتے ہیں سننے میں تو اچھا لگے گا مگر یہ کوئی اتنا ضروری بھی نہیں کہ آپ ہزاروں جراثیموں کو اپنی ناک سے نکلتے دیکھو اور ہو سکتا ہے آنکھیں کھلی ہوں تو یہ جراثیم آنکھوں کے اندر بھی جا سکتے ہیں چھینک لیتے ہوۓ ہمارا سانس چند لمحوں کے لئے رک بھی جاتا ہے. مسلمان چھینک لینے کے بعد الحمدللہ کہتے ہیں، جس کے معنی ہیں “الله تیرا شکر ہے ” کہ اللہ نے چھینک کے بعد ہمارا سانس دوبارہ بحال رکھا، اور نہ صرف مسلمان بلکہ ہر مذھب کے انسان اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں. انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ سوتے ہوۓ چھینک کسی کو بھی نہیں آتی. سائنس دان کہتے ہیں کہ چھینک کو آنے سے روکنا نہیں چاہئے کیوں کہ اس طرح خون اور دماغ کی شریانوں پر دباؤ آئے گا اور یہ صحت کے لئے اچھا نہیں ہوگا….