حضور اکرم صل الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ایک حافظ قران اپنے خاندان میں سے دس ایسے افراد کی سفارش کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہوگی (یعنی انکا جہنم میں جانے کا فیصلہ ہو چکا ہوگا )اور الله تعالی اس کی سفارش سے انکو اس حافظ قران کے ساتھ جنت میں داخل فرمائیں گے، (ترمزی احمد ) سبحان الله : یہ احادث مبارکہ سنتے ہی میری آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک لڑی جاری ہو گئی اور میں سوچتا رہا کہ میں کتنا بدنصیب ہوں کہ میں نے اپنی اولاد کی پرورش ایسی نہ کی انکی کوئی تربیت نہیں کی انہیں دین اور دنیا کا کوئی سبق نہیں پڑھایا ،اہ میں کتنا بد نصیب ہوں ،آج میری اولاد جن کو میں نے پال پوس کر اتنا برا کیا آج وہ مجھے گھر سے نکل جانے کی دھمکی دیتے ہیں وہ اپنی بیویوں کی بات کے آگے میری بات کو اہمیت نہیں دیتے ہیں، جب میں نے دعا ختم کی اور سر اوپر اٹھایا تو تمام نمازی جا چکے تھے اور مولوی صاھب بھی اپنی حدیثوں والی کتاب الماری میں رکھ کر جانے کی تیاری کر رہے تھے میں بھی وہاں سے اٹھا اور اپنے گھر ا گیا میری بڑی بہو کچن میں کھانا بنا رہی تھی اور چھوٹی بہو اپنے میکے گئی ہوئی تھی. میں آج بہت دکھی ہو رہا تھا ایک غم تھا میرے اندر جو ختم نہیں ہو رہا تھا، میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے، میں روئے جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کاش میں نے اپنے بچوں کو دین کی بھی تعلیم دی ہوتی، میں نے اپنے بچوں کو شہر کے سب سے بڑے سکول میں داخل کرایا اور جب وہ انگلش بولتے تو میرا سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا میں انہیں اس طرح انگلش بولتے دیکھ کر بہت خوش ہوتا تھا،
کاش میں نے انہیں دین کی تعلیم بھی اسی طرح دلائ ہوتی تو آج مجھے یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا، مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میرے بڑے بیٹے نی ایک بار مجھ سے انگلش میں میرا حال پوچھا تو میں بہت خوش ہوا تھا اور اسی خوشی میں میں نے اسے انعام بھی دیا تھا، میرا بڑا بیٹا تو تھوڑی بہت اردو سمجھ بھی لیتا ہے مگر چھوٹا تو بلکل بھی اردو نہیں جانتا میں اس وقت بہت خوش ہوتا تھا مگر آج میں یہ باتیں یاد کر کہ دکھی ہو رہا ہوں. ظاہر ہے جب میں نی انہیں انگریزوں والی تعلیم دلائی ہے تو انہوں نے میرے ساتھ سلوک بھی تو انگریزوں والا ہی کرنا ہے نا، صبح کو میرے بیٹے سکول جاتے تھے دو بجے انکی واپسی ہوتی تھی اور پھر تین بجے انکا اکیڈمی کا وقت ہوتا تھا. میری بیوی بہت نیک اور نمازی تھی اسنے مجھے کہا بھی کہ ہمیں بچوں کو قران پاک کی بھی تعلیم دلوانی چاہئے میں بیوی کی یہ بات سن کر سوچ میں پڑ گیا کہ بچوں کے پاس تو قران کی تعلیم کے لیے وقت ہی نہیں ہے اور یہی بات جب میں نے اسکو بولی تو وہ کہنے لگی کہ دو سے تین بجے تک بچے فارغ ہوتے ہیں اپ کسی قاری صاھب سے بات کریں کہ وہ آدھا گھنٹہ بچوں کو پڑھا دیا کریں گے. مجھے بیوی کی یہ تجویز اچھی لگی اور میں گھر کے قریب ایک بہت اچھے مدرسے میں گیا وہاں جا کر قاری صاھب سے بات کی لیکن انہوں نے کہا ہم بچوں کو ایک گھنٹے سے کم نہیں پڑھاتے، میں بضد رہا کہ اپ ادھ گھنٹہ پڑھا دیں لیکن وہ نہیں مان رہے تھے، آخر وہ تنگ آ کر مجھے کچھ باتیں سمجھانے لگے کتنی اچھی تھیں وہ باتیں جو وہ کر رہے تھے، کتنی مٹھاس تھی انکی باتوں میں، کاش میں نے انکی باتوں پر اس وقت ٹھنڈے دماغ سے سوچتا اس پر عمل کیا ہوتا، انکا کہا ایک ایک لفظ سچ تھا، آج دل چاہ رہا تھا کہ میں دوڑ کر ان کے پاس جاؤں اور ان کے پاؤں چوم لوں، لیکن اب تو وہ خود بھی اس دنیا سی چلے گئے انہوں نے ٹھیک کہا تھا کہ ہم دنیوی تعلیم کو تو دیں بارہ گھنٹے اور دینی تعلیم کے لیے صرف ادھ گھنٹہ، دین کی تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جتنی دنیاوی تعلیم ضروری ہے دینی تعلیم تو ہمیں صرف دنیا میں فائدہ دے گی لیکن مرنے کے بعد دینی تعلیم ہمارے کام آئے گی، کتنے بد نصیب ہونگے وہ والدین جنکو مرنے کے بعد انکی اولاد ایصال ثواب نہیں کرے گی کیوں کہ ہم نے انہیں کچھ سکھایا ہی نہیں ہوگا، کیسے وہ ہمیں نہلائے گی، کیسے کفن پہنائے گی، قبر میں کیسے اترنا ہے یہ انکو نہیں پتا ہوگا.
استغفر الله ، میں آج کس مقام پر ہوں قاری صاھب کی باتیں اس وقت تو سن کر میں انہیں غلط کہ کر مغلوب ہو گیا اور میں نے اپنے بچوں کو دین کی کوئی تعلیم نہیں دی، وہ میرے مرنے کے بعد کیا مجھے فائدہ پہنچاتے، مجھے تو انہوں نے میری زندگی میں بھی کوئی فائدہ نھے دیا. میری بہوئیں بھی مجھے اچھا نہیں سمجھتیں، بڑا بیٹا ڈاکٹر ہے مگر مجھے نہیں یاد کہ اس نے کبھی میرا بھی علاج کیا ہوگا، چھوٹا بیٹا بزنس مین ہے مگر اسنے کبھی مجھے ایک کوڑی بھی نہیں دی. مجھے بار بار وہ حدیث یاد ا رہی ہے، کتنے خوش نصیب ہونگے وہ ماں باپ جنکی اولاد انکو پڑھ کے بخشے گی.