ایک دن بہلول دجلہ کے کنارے بیٹھا تھا، وہ مٹی سے گھر بناتا اور پھر انہیں مسمار کر دیتا تھا. وہ بچوں کی طرح کھیل رہا تھا جیسے بچے ریت کو اپنے پاؤں پر تھپکتے اور پھر آہستگی سے پاؤں نکال لیتے اگر پاؤں کا نشان بنا رہتا تو وہ بہت خوش ہوتے تھے، ایسے ہی بہلول بھی مٹی سے کھیل رہا تھا کہ وہاں سے بادشاہ کی سواری گزری، بادشاہ نے دیکھا کہ بہلول مٹی سے کھیل رہا ہے، بادشاہ نے بہلول سے پوچھا: بہلول کیا کر رہے ہو؟
بہلول نے جواب دیا کہ “جنت کے مکان بنا رہا ہوں.” تو بادشاہ نے پوچھا کہ بیچتے ہو؟ اس پر بہلول کہنے لگا ہاں بیچتا ہوں، تو بادشاہ نے پوچھا کہ کتنے میں؟ بہلول نے کہا کہ دس درہم میں سیل لگائی ہوئی ہے، بادشاہ نے سنا تو مسکرا دیا اور سوچا دیوانہ ہے، مجنوں ہے اور آگے گزر گیا. بادشاہ کے پیچھے اس کی ملکہ زبیدہ بھی آ رہی تھی، ملکہ کی نظر بھی بہلول پر پڑی اور وہ اس کو دیکھ کر پوچھنے لگی، بہلول کیا کر رہے ہو؟ بہلول نے اسے بھی وہی جواب دیا کہ جنت کے مکان بنا رہا ہوں، ملکہ نے پوچھا بیچتے ہو؟ کہنے لگا ہاں ، دس درہم میں، ملکہ کے لئے دس درہم کیا حقیقت رکھتے تھے اس نے نکال کر فوراً بہلول کو دے دئے، بہلول نے دس درہم ملکہ سے لے کر دریائے دجلہ میں پھینک دئے.
داتا گنج بخش رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں کہ “فقیراس وقت تک فقیرنہیں بنتا جب تک مٹی کا ڈھیلہ اور سونا اس کے لئے برابر نہیں ہوتے” درہم لے کر اس بہلول نے ایک مکان کے گرد دائرہ کھینچ دیا اور ملکہ سے کہا یہ تیرا محل ہے. ملکہ نے سنا تو وہ مسکرا کر آگے بڑھ گئی. رات میں بادشاہ نے خواب دیکھا کہ ایک بہت بڑا میدان ہے حشر کا دن ہے. جنت کا نظارہ بادشاہ کے سامنے آیا اس نے دیکھا بہت سے محل ہیں، ایک محل بہت ہی خوبصورت ہے، بادشاہ کا دل چاہا اس محل کو دیکھے. محل دیکھنے کے لئے بادشاہ اس کے قریب گیا تو مکان کے دروازے پر لکھا تھا “ملکہ زبیدہ” ملکہ کا نام سن کر بادشاہ حیران ہوا اور دیکھنے کے لئے آگے بڑھا، دربان نے دروازے پر روک دیا اور کہنے لگا یہ ملکہ کا محل ہے تم نہیں جا سکتے. بادشاہ نے کہا، وہ میری ملکہ ہے، دربان نے جواب دیا، “دنیا کے ضابطے کچھ اور ہیں جنت کے کچھ اور”
بادشاہ بے چین ہو کر اٹھ بیٹھا وہ بڑا پریشان ہوا اس نے ملکہ کو جگایا اور اس سے پوچھا: تو نے کون سا ایسا نیک عمل کیا ہے میں نے جنت میں تیرا محل دیکھا ہے، اور پھر سارا واقعہ ملکہ کو سنا دیا، ملکہ نے کہا، میں نے تو نیا کچھ بھی نہیں کیا وہی روز کی نمازیں ہیں وہی سب کچھ ہے، پھر ملکہ کو یاد آیا کہنے لگی دجلہ کے کنارے جو مجذوب بیٹھا تھا، میں وہاں سے گزر رہی تھی کہ اس نے کہا، جنت کا مکان بنا رہا ہوں دس درہم میں ہے، میں نے سوچا فقیر ہے دس درہم سے کیا ہوتا ہے میں نے دس درہم اس کو دے دئے.
بادشاہ نے یہ سنا تو اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا اس نے تو مجھے بھی یہی کہا تھا لیکن میں دیوانے کی بات سن کر گزر گیا . اگلے دن بادشاہ قصدا وہاں سے گزرا اس کا دل دھڑک رہا تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ اگر آج بھی وہ مجذوب مل جائے اور اپنی اسی دھن میں ہو اور وہی کہے تو میں اس سے دس درہم میں محل خرید لوں گا. بادشاہ اس جگہ پر آیا اور دیکھا کہ بہلول بیٹھا ہواہے اور کام بھی وہی کر رہا ہے بادشاہ نے دھڑکتے دل سے پھر وہی سوال کیا، بہلول کیا کر رہے ہو، وہ بولا جنت کے مکان بنا رہا ہوں، کہا ، بیچتے بھی ہو؟ بہلول بولا ہاں ، بادشاہ نے ادھر جیب میں ہاتھ ڈالا اور پوچھا کتنے میں؟ بہلول بولا: آدھی حکومت لگے گی، بادشاہ حیران ہوا اور کہنے لگا کل تو تم دس روپے میں بیچ رہے تھے. بہلول نے کہا کل تم نے دیکھا نہیں تھا آج سودا دیکھ کے لے رہے ہو. “سبحان اللہ”
ایک خوشخبری آپ مسلمانوں کے لئے بھی ہے . رسول خدا صل الله علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہے، ترجمہ: آپ نےصحابہ سے فرمایا مبارک ہو تمہیں کہ تم نے مجھے دیکھا اور مجھ پہ ایمان لائے، اور سات بار اُسے مبارک ہو ایمان کی، جس نی مجھے دیکھا بھی نہیں اور پھر بھی مجھ پر ایمان لائیں گے. “سبحان اللہ”