کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا، وہ بہت محنتی تھا اور گاؤں کے لوگ اسکی بہت عزت کرتے تھے، مگر اسکی بیوی بہت ہی لڑاکا تھی وہ ہر ایک سے الجھتی تھی، گاؤں کے سبھی لوگ اس سے بہت تنگ تھے لیکن وہ کسان کی وجہ سے اسے برداشت کرتے تھے، اگر گاؤں کی عورتیں اسے کہتیں کہ چلو کنویں سے پانی بھر لاتے ہیں تو وہ کہتی کہ نہیں، ہم پانی ندی سے بھر کر لاینگے. گاؤں کی عورتیں کہتیں کہ آؤ ہم اپلے پہاڑی کے اوپر تھاپنے چلتے ہیں، کسان کی بیوی کہتی کہ نہیں اپلے پہاڑی کے نیچے تھاپے گیں ہم. گلی میں مچھلی والا آواز لگاتا بام مچھلی لے لو، وہ مچھلی والے کو کہتی کہ تم بام مچھلی کیوں لائے ہو، سرمئی یا سنگھاڑا مچھلی کیوں نہیں لائے اور جب وہ سرمئی اور سنگھاڑا مچھلی لاتا تو کہتی کہ بام مچھلی کیوں نہیں لائے. اسکی ان حرکتوں کو دیکھ کر گاؤں کے لوگوں نے اسکا نام “اُلٹی کھوپڑی” رکھ دیا تھا. اب ہر کوئی اسے الٹی کھوپڑی کہ کر ہی پکارتا تھا. وہ جب کھیتوں میں کام کرنے جاتی تو کبھی ادھر کی جھاڑیوں سے کوئی اسے “اُلٹی کھوپڑی” کے نام سے بلاتا تو کبھی ادھر سے وہ سب سے چھپتی چھپاتی پھرتی، لیکن اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتی تھی.
اسی طرح وہ ہر بات پر گاؤں کے ہر انسان سے الجھتی رہتی تھی، یہاں تک کہ وہ کسان کو بھی نہ چھوڑتی، کسان اسکی ان حرکتوں سے بہت تنگ تھا. گاؤں کے لوگ جب کسان کو آکر اسکی شکایت کرتے تو وہ کہتا کہ بھائیوں تم خدا کا شکر کرو کہ وہ تمہاری بیوی نہیں ہے، تمہیں تو اسکو کبھی کبھی برداشت کرنا ہوتا ہے لیکن مجھے تو اسے چوبیس گھنٹے بھگتنا پڑتا ہے. میں رات کو تھکا ہارا گھر جاتا ہوں اور جب میں چت لیتا بے سدھ سو رہا ہوتا ہوں تو وہ مجھے ٹہوکہ مار کے کہتی ہے کہ ایسے کیوں لیٹے ہو کروٹ سے لیٹو اور جب کروٹ سے لیٹتا ہوں تو کہتی ہے کہ سیدھے لیٹو، اگر کسان کام پر جلدی جانے کی وجہ سے منہ میں بڑے نوالے رکھتا اور جلدی جلدی منہ چلاتا تو وہ کہتی آرام سے کھانا کھاؤ اور جب کسان کو جانے کی جلدی نہ ھوتی تو وہ کہتی کہ جلدی سے کھانا ختم کرو اور کام پر پہنچو بلکہ ایسا کرو تو روٹی ساتھ ہی لے جاؤ راستے میں کھا لینا، کسان اسے کہتا بھی کہ مجھے کھانا سکون سے کھانے دو آج کوئی ایسا ضروری کام نہیں ہے مگر وہ نہ سنتی وہ اسے کھانا ہاتھ میں دے کہ بھیج دیتی. کسان کہتا کہ میرا کرتا سی دو وہ کہتی کہ نہیں پاجامہ سلوا لو، بھلا اب کوئی پوچھے کہ پھٹا ہوا تو کرتا ہے تو پاجامہ کیسے سلوائے کوئی، کسان کہتا کہ آج دال پکانی ہے وہ کہتی کہ نہیں آج الو پکانے ہیں، وہ سخت جارے میں کسان کو ٹھنڈا شربت پلا کے بیمار کر دیتی اور کہتی کہ گرمی میں چائے پیتے ہیں. وہ تو میرا بھی دماغ الٹ دیتی ہے، مجھے بتاؤ میں تمہاری شکایت کیسے دور کروں ،، میں تو خود اس سے بہت تنگ ہوں. ….
فصل پک جانے کا زمانہ تھا، ایک دن دونوں میاں بیوی صبح صبح گھر سے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے، کسان نے کہا منگل تک فصل کاٹنا شروع کرینگے ، بیوی بولی ہر گز نہیں، بدھ سے پہلے فصل نہیں کاٹنی، کسان اسکی وہ بات بھی مان گیا، کسان نے کہا کہ میں کل اپنے دو بھائیوں کو بلوا لونگا وہ بھی فصل کی کٹائی میں مدد کرینگے، کسان کی بیوی نے کہا نہیں، میں اپنے دو بھائیوں کو بلواؤں گی وہ تمھارے بھائیوں سے زیادہ پھرتیلے ہیں، کسان سے اسکی یہ بات بھی مان لی. کسان نے کہا کل سے ہمیں صبح پانچ بجے سے اٹھنا ہوگا تاکے سارا دن میں زیادہ سے زیادہ کام نمٹ سکے، بیوی نے کہا: نہیں ہم چھ بجے اٹھیں گے اور دوپہر میں ادھ گھنٹہ آرام کرینگے، کسان نے کھا چلو چھ بجے اٹھ جاینگے لیکن اگر آرام نہ بھی کیا تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا موسم تو خوش گوار ہی ہے ، بیوی نے کہا کہ نہیں موسم کب خوش گوار ہے گرمی ھوتی ہے اور مٹی بھی اڑتی ہے اس لیۓ آرام کرنا ضروری ہے ،کسان نے اسکی یہ بات بھی مان لی. کسان نے کہا کل صبح ہی ہمیں درانتیاں تیز کروا لینی چاہئے ، بیوی بولی درانتیاں نہیں نہیں اس بار ہم فصل درانتیوں کی بجائے قینچیوں سے کاٹیں گے، بیوی کی یہ بات سن کر کسان جھلا اٹھا اور بولا تیری کھوپڑی تو واقعی الٹی ہے رائی کی فصل کبھی درانتیوں سے بھی کٹی ہے ،تو بیوقوف ہے، بیوی بولی تم پاگل ہو گئے ہو اس بار فصل قینچی سے ہی کٹے گی ،میں درانتی کو پاس بھی نہیں آنے دونگی ،کسان بھی ضد پر اتر آیا ،کہنے لگا میں قینچی کو فصل کے پاس بھی نہیں انے دوں گا، لوگ درانتی سے فصل کاٹتے دیکھیں گے تو ہمارا مذاق اڑائیں گے ،بیوی نے کہا ،
لوگ قینچی سے کاٹتے دیکھیں گے تو ہم پر ہنسیں گے، کسان بولا: یہی بحث کرتے کرتے وہ دریا کی پلی پرسے گزر رہے تھے کہ بیوی کو کسان کی بات پر سخت غصہ آ رہا تھا اور اس غصے میں اسے یہ بھی خیال نہیں رہا کہ پلی کے دونوں طرف منڈیر نہیں ہے ،وہ کسان سے بحث کرتے ہونے جونہی غصے سے اچھلی اس کا پاؤں پیچھے پڑا اور وہ سیدھا ندی میں جا گری پلی کے اس طرف ندی بہت گہری تھی اور دونوں کو ہی تیرنا نہیں آتا تھا، پانی میں گرتے ہی وہ ڈبکیاں کھانے لگی اور جب ایک بار ابھری تو اسنے بچاؤ کی آواز لگانے کی بجائے کہا، “قینچی صرف قینچی” اس دن کسان بھی ضد پر اتر آیا تھا اس نے بھی برجستہ کہا ،،درانتی اور صرف درانتی ،،،، یہ کہ کر وہ بیوی کو ندی سے نکالنے کی ترکیب سوچنے لگا ،، کسان کی بیوی ندی میں ڈبکیاں کھاتی رہی مگر وہ جب بھی ابھرتی چیخ کر ایک ہی بات کہتی “قینچی”
ادھر کسان بھی ضد پر اتر آیا تھا ،اسکو اپنی بیوی پر زرہ بھی ترس نہیں آ رہا تھا وہ بھی اسکو دوبدو جواب دیتا کہ “درانتی” کسان کی بیوی کی سانسیں اب پھولنے لگیں تھیں ،اور اب اسکی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی، ندی بہت گہری تھی، وہ کافی دیر پانی کے اندر ہی رہی اور جب کافی دیر کے بعد ابھری تو وہ نیم بیہوشی کی حالت میں تھی، اس سے بولا نہیں جا رہا تھا، اس نے اپنا ہاتھ پانی کی سطح سے اوپر کیا اور ہاتھ کے اشارے سے کسان کو کہا کہ فصل قینچی سے ہی کٹے گی، وہ بھی مرد تھا اس نے بھی درانتی چلانے کے انداز میں ہاتھ ہلا کر کہا، درانتی سے ہی کٹے گی فصل ،،،،، کسان نے بہت دیر تک ندی میں دیکھا مگر وہ پھر ظاہر نہیں ہوئی، یہ دیکھ کر کسان نے زور زور سے چلانا شروع کر دیا ،بچاؤ بچاؤ ،الٹی کھوپڑی ندی میں گر گئی ،جلدی آؤ، کسان کی آواز سنتے ہی پاس کے کھیتوں سے لوگ دوڑے چلے آئے، وہ سب تیرنا جانتے تھے اسی لیۓ سب نے ندی میں چھلانگ لگا دی وہ چاروں طرف الٹی کھوپڑی کو ڈھونڈتے رہے، مگر الٹی کھوپڑی کھین نہیں ملی ،،، انہوں نے سوچا کہ پانی کا بھاؤ جس طرف ہے اس طرف چلتے ہیں اور سب اس طرف چل پڑے، کسان چلایا، ارے بھائی تم بھاؤ کی طرف کیوں جا رہے ہو وہ الٹی کھوپڑی ہے وہ پانی کے اٹھان کی طرف ہوگی سب اب اٹھان کی طرف چل پڑے وہاں انہیں الٹی کھوپڑی ایک جھاڑی میں پھنسی مل گئی، انہوں نے اسے دیکھا تو اسکا ایک ہاتھ قینچی کے پھلوں کی طرح بنا ہوانہوا تھا حالانکہ وہ مر چکی تھی مگر اسکا قینچی کی طرح کھلا ہاتھ اپنا فیصلہ سنا رہا تھا. کسان روتا دھوتا اس کا جنازہ اپنے گھر لے آیا تھا، اس نے اسکی تجہیز و تکفین کی. کسان نے اس کی قبر پر یادگار کہ طور پر درانتی گاڑ دی جو آج بھی اس کی قبر پر گڑھی ہے.