Puppetry

کٹھ پُتلی آقاؤں کی حقیقت

مشتاق حسین سامٹیہ

کٹھ پتلیاں  انسانوں، جانوروں، غیر جانب چیزوں، دیو مالائی یا مفروضی شخصیات کی سلسلہ وار تفریحی نمائش ہے۔ ان کٹھ پتلیوں کو کوئی ایک شخص یا چند اشخاص چلاتے ہیں۔ ہر حرکت کے ساتھ عمومًا کچھ مکالمے،ٹاک شواور کانفرس کا پس منظر تمہیدی تبصرہ ہوتا ہے۔ میکسیکو شہر کے ایک بازار میں کٹھ پتلیوں کی بڑے پیمانے پر موجودگی  کی بھی جانچ ملتی  ہے۔

 دنیا بھر میں کٹھ پُتلی آقاؤں کی حقیقت  کا جائزہ لیا جائے تو چند ریاستوں کا تزکرہ ضروری ہے

ہندوستان میں رام داس پادھیئے بولتی کٹھ پتلیاں سازی کی آج بھی ایک نمایاں پہچان ہیں۔ گزشتہ 40 برسوں میں انہوں نے ہند اور بیرون ہند 9000 سے زائد کٹھ پتلی پروگراموں کا مظاہرہ کیا۔ کٹھ پتلیاں بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں طور پر تفریح کا مقبول ذریعہ رہی ہیں۔ کٹھ پتلی کی تاریخ بیسویں صدی سے بھی پرانی ہے۔ امریکا میں 1937ء میں کٹھ پتلی تماشا کرنے والے ماہرین نے بڑے پیمانے پر کٹھ پتلی سے متعلق معلومات کو عام کیا تو ہرحکومت شخص اپنی ناکامیوں کے الزامات دوسرے اشخاص پر عائد کرنا جانتا ہے۔ لیکن اقتدار آور شخص میں الزام تراشی کے  ریکارڈ قائم ہو رہے ہوتے ہیں ۔ جب الزام تراشی ایک وحشت میں بدل جائے تو ایسے میں بالعموم دوسری جانب سے بھی الزام تراشی کے سوا کوئی جواب نہیں ملتا۔ اور دنیا تو اس موزی امراض کا شکار ہمشہ سے رہی ہے نہ جانے کس قدر لوگ اس لاعلاج مرض کو ہی اپنے حقوق میں ڈال لیتے ہیں ۔کہ جیسے ان پر مذہبی طور پر عائد کی جا چکی ہو۔ اس کو  بیک گراؤنڈ میں جائیا جائے تو آپ کو کسی نہ کسی  اقتدار اعلیٰ کی تفریحی سازش نظر آجاے گی ۔اگر اس طرح کی امثال کا جائزہ لیا جائے تو یقیناً آپ کو ایک لڑی میں پرویا جیسی زنجیر دیکھنے کو ملے گی۔ائیے ملحوظ خاطر فرمائے ۔

بات اگر اقتدار کی ہو اور اس میں سیاسی کردار  دیکھنے میں نہ آئے تو یہ نا انصافی رہے گئ۔  حکمران طبقے کے سیاسی نمائندوں میں یہ بڑھتا ہوا تناؤ اور بدتہذیبی بنیادی طور پر اس سارے طبقے کی اپنی ٹوٹ پھوٹ اور بحران کی غمازی کرتی ہے۔  سرمایہ داروں، بڑے زمینداروں اور درمیانے کاروباری طبقے کی جماعت ہو اور ان کی مہارت کا زور صرف اور صرف کہ نظام کے بحران کو ٹالنا کیسے ہے اور آئی ایم ایف کیساتھ ہاتھ کیسے ملانا ہے۔ دوسری طرف نودولتیوں اور شہری مڈل کلاس پر مبنی جماعت ہو جس کے ثقافتی معیار اور سماجی بنیادوں کو جاننے کے لئے۔

 نیا نیا سیاسی اور معاشی مقام حاصل کرنے والے ایسے حکمران ایک جانب نیکی، روحانیت پارسائی کے اندر رچی بسی ہوئی ولگیریٹی اور بدتہذیبی کا ایک ایسا ملغوبہ بن ہوتا ہل جو متضاد شخصیات اور کردار استوار کر دیتا ہے۔ لیکن  سیاست کی تمام پارٹیوں کی تنزلی جہاں ان کے نظام کے زوال کی غمازی کرتی ہے وہاں ان کی سیاسی اقدار اور اخلاقیات کی گراوٹ کو بھی بے نقاب کر رہی ہوتی ہے۔ اس کے بے نقابی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان میں کس قدر ملی بھگت ہے ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ایک جانب زہریلا مرض  پھیلاتے ہیں اور پھر اس کا علاج لارہے ہوتے ہیں پاکستان کی سیاسی کٹھ پُتلی کو ایکشن انگریزی فلم کے متبادل لیا جا سکتا ہے ۔ پاکستانی سیاست وہ مکمل ایکشن فلم ہے  جس کا ویلن بہت مضبوط صلاحیت کا مالک ہوتا ہے

ایک طرف لوگ بھوک ، پیاس،مفلسی اور طرح طرح کی مصیبتیں جیھل رہے ہیں اور ہمارے حکمران سیاستدان اپنی لوٹ کھسوٹ کے ساتھ رعایا کو ٹوپیاں کروا رہے ہوتے ہیں  اور دوسری طرف اپوزیشن پارٹی اپنی  سیاست کو بہترین کرنے کی بجائے بلکہ اپوزیشن جماعتوں پر جگت بازی اور تضحیک کرنے اور خالی سیاسی شاپر کے کارڈ دے رہی ہوتی ہے.

 پنجاب کی با ت کریں تو قدیم ثقافتی روایات میں ایک اہم عنصر جگت بازی اور طنز و مزاح کا بھی ہے۔ لیکن عمومی تاثر کے برعکس جگت کا مطلب بیہودگی ہرگز نہیں ہے بلکہ حاضر جوابی کیساتھ کیا گیا ایسا مزاح بڑا لطیف بھی ہو سکتا ہے۔ آج بھی ایسی جگتیں سننے کو ملتی ہیں جن میں گہری طنز کا عنصر پایا جاتا ہے۔ لیکن یہاں جاگیرداری کی باقیات ابھی تک ثقافت اور رویوں پہ حاوی ہیں۔ ایسے میں نودولتیے بھی ’خاندانی‘ اور ’جدی پشتی زمیندار‘ ہونے کا تاثر اپنے لباس اور انداز سے دینے کی کوشش کرتے ہیں جو بڑا بھونڈا اور مصنوعی ہوتا ہے۔ اس بناوٹ اور منافقت کو عام انسان آسانی سے پہچان سکتا ہے۔ اور اس کے برے اثرات بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اقتدار آور حکمران طبقہ اپنی تفریحی کے لیے متوسط طبقے کی جان پہ کھیل سکتا ہے ۔

 فنکاروں کو بڑی ہی تضحیک کیساتھ بھانڈ یا میراثی کہہ کر انکی غربت اور محرومی کا دلسوز مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لیکن آج کی حقیقت یہ بھی ہے زیادہ تر سرکردہ سیاست دان اور پارٹیوں میں ترقی کرکے بڑے لیڈر بن جانے والے یہ حکمران انہی بھانڈوں اور مراثیوں کا بہت ہی گھٹیا چربہ معلوم ہوتے ہیں۔ اب پارٹیوں کی نمائندگی کا معیار صرف یہ بن گیا ہے کہ ٹیلی ویژن پروگراموں اور جلسے جلوسوں میں کون زیادہ گھٹیا جگت بازی کرتا ہے اور کون مدمقابل سیاستدانوں کی تضحیک کر سکتا ہے۔ جگت بازی اور تضحیک آمیز تقریریں آپ کو بلندو بالا مقام دلانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہوتی ہیں ۔ اس طرح متوسط طبقے بغیر سوچے سمجھے اپنی بلی چڑھوا دیتے ہیں اور کٹھ پُتلی کا شکار بنے رہتے ہیں.  بات صرف اقتدار اور حکمران طبقہ کی ہی نی ہے یہاں تو سب بک رہا ہے اور سب زرداری کی منڈی میں اپنی اپنی بولی لگوا رہےہیں ۔ سب کے سب  کٹھ پتلیاں کے محور بنے ہوا ہے۔عام لوگ بھی جب صحت مند تفریح، مزاح اور رونق سے محروم ہوجاتے ہیں تو پھر ان ٹاک شوز کو دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیونکہ ڈرامہ، تھیٹر اور فلم کے معیار بھی اتنے ہی گر چکے ہیں۔ایسے میں عوام کو اپنے روز مرہ کے اذیت ناک مسائل اور ذلتوں سے توجہ ہٹانے کے لئے ان سیاستدانوں کی گھٹیا اور بے ہودہ جگت بازی والے ناٹکوں کی لت سی لگ جاتی ہے۔پھر اپنے حصے کی مصنوعی ذہانت خیرات بانٹنے کے ساتھ ساتھ خیالی پلاؤ بھی بنا لیا جاتا ہے اور اس سے اظہار ہمدردی اور محبت کی جاتی ہے اس کے لیول کو دیکھا جائے تو اس قدر ہوتا ہے ساتھ پیدا ہونے سے لیے کر ساتھ دفن ہونے تک کے رشتہ کو ایک خیالی پلاؤ کے لیے پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

 اِن میزبان خواتین و حضرات، پروگراموں میں شریک نام نہاد ماہرین اور سیاستدانوں کی یہ لایعنی اور گری ہوئی گفتگو اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے  ان کے پاس کہلواڑ کے سوائے  نظام کے رکھوالوں کے پاس معاشرے کو درپیش سنگین مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ نہ ہی عوام کے حق میں اصلاحات کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ یہ بس لوگوں کو ا س درد و الم میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں کہ اپنے سلگتے ہوئے مسائل اور محرومیوں سے بھری زندگیوں کو وقتی طور پر فراموش کر دیں اور بس ان کی آنیاں جانیاں دیکھتے رہیں۔ اور اپنے مفادات کے لیئے پل صراط جیسی حد کو پار کرنے میں لگ جائیں گے ہاں مگر کتنے لوگ متاثر ہوں ان سے کوئی غرض نہیں ۔

error: Content is protected !!