Saas Bahu ki kahani
ویسے تو بدلتے وقت کے ساتھ ہر چیز ہی بدل جاتی ہے مگر ایک چیز ایسی ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے. وہ روز ازل کی طرح ہی ویسے کی ویسی ہی ہے. ساس بہو کا رشتہ ایسا ہے کہ وہ پہلے کی طرح ہی ہے اس میں کوئی ردو بدل نہیں ہوا ہے. کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آجکل کی ساس اتنی سخت نہیں ہوتی جتنی پہلے زمانے کی ساسیں ہوا کرتی تھیں، مگر یہ بات بھی درست ہے کہ اس رشتے میں اب بھی نوک جھونک، بحث و تکرار،اور ناراضگی اب بھی چلتی ہے.
دوسری طرف کچھ خواتین یہ بھی کہتی ہیں کہ ساس بہو کا رشتہ ماں بیٹی کی طرح کا ہی ہوتا ہے. ان خواتین کہ کہنا ہے کہ ہماری ساس ہم سے بیٹی کی طرح ہی سلوک کرتی ہیں کہ غلطی پر ڈانٹ پڑتی ہے مگر وہ اپنی شفقت اور محبت بھی ان پر لٹاتی ہیں. جب بھی کوئی ماں اپنے بیٹے کے لئے کوئی رشتہ ڈھونڈنے جاتی ہیں تو ان کے دماغ میں پہلے ہی سے یہ بات ہوتی ہے کہ انہیں کیسی بہو چاہئے یا کیسی بہو ان کے گھر میں بس سکتی ہے. ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بہو گھر ائے اور اس کے گھر کو سنبھال لے انکی خدمت کرے، کچن کا کام سنبھالے اور انکو گھر کی ذمے داریوں سے خلاصی دے.
یہاں ہم آپکو چند ایسی باتیں بتائیں گے جو ایک بہو کی خاصیت ہونی چاہئے اور ہر ساس یہ دیکھتی ہے. لڑکی کھانا بنانا جانتی ہو، اور اس کے بیٹے کو اسکی پسند کے علاوہ بھی اچھے اچھے کھانے بنا کر دے مہمان بھی گھر ائے تو وہ بہو کے ہاتھ کا کھانا کھا کر تعریف بنا نہ جا سکے اور خاندان میں اسکی بہو کا نام ہو. بہو مکمل طور پر کچن سنبھالنے والی ہو. اور اگر کوئی کام نہ آتا ہو تو بہو وہ بھی جلد ہی سیکھ لے. کوئی بھی ساس یہ بات پسند نہیں کرتی کہ گھر کی ملازمہ تو کھانا بنا رہی ہے اور گھر کی بہو کسی پارلر میں بیٹھی سروسز لے رہی ہے یہ بات ساسیں سال میں ایک دو مرتبہ تو برداشت کر لیتی ہیں مگر مکمل طور پر گھر ملازموں کے حوالے کرنا وہ بلکل پسند نہیں کرتیں ہیں. اگر بہو کوئی ملازمت کرتی ہو تو اسے چاہئے کہ وہ شام کی چاۓ میں ساس کے پاس بیٹھ کر ان سے ان کا حال احوال پوچھ لے اور ادھر ادھر کی تھوڑی سی بات کر لے. کوئی بھی ساس یہ برداشت نہیں کرتیں کہ انکی بہو جاب تو کرے مگر گھر کے کام میں دلچسپی نہ لے، آپکو کم از کم اپنی نگرانی میں رات کا کھانا بنوانا چاہئے تاکہ ساس کو بھی تسلی رہے کہ بہو کو گھر کی ذمے داریوں کا بھی خیال ہے.
ساس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے گھر آنے والے مہمانوں کا بھی بہو بہت اچھی طرح خیال رکھے تاکہ گھر آنے والے مہمان اس کی بہو کی تعریف کرے کہ واہ کتنی خوش مزاج بہو ڈھونڈی ہے. گھر آنے والے مہمانوں کی اچھی طرح خاطر مدارت کرنی چاہئے تاکہ ساس اور شوہر کو کوئی شکایت نہ ہو. ہر ماں کی یہ خاھش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا شادی کے بعد خوش ہو، اگر بیٹے کے چہرے پر پریشانی یا افسردگی نظر آجائے تو ماں بھی پریشان ہو جاتی ہے اور سوچتی ہے کہ اسکی بہو بیٹے کو خوش نہیں رکھ رہی ہے. اس لئے بہو کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھے اس کی خوشی اس کے چہرے پر نظر آنی چاہئے. نئ شادی شدہ لڑکیوں کو اس بات کھا خیال بھی رکھنا چاہئے کہ بیٹا ہمیشہ ماں کو اپنے قریب دیکھتا ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی بھی اس کی ماں کی طرح ہی اس کا خیال رکھے اس لئے آپ کوشش کرو کہ کام ویسے ہی کریں کہ جیسے ساس کرتی تھی اس سے آپ اپنے شوہر اور ساس کے اور زیادہ قریب ہوں گی.
شادی کے بعد ساس کی نظر بہو کے ہر کام پر ہوتی ہے وہ دیکھتی ہیں کہ انکی بہو گھر والوں سے کس انداز سے بات کرتی ہے رشتے داروں سے اس کا رویہ کیسا ہوتا ہے، وہ سبزی لیتے وقت سبزی والے سے کیسے بات کرتی ہے کیسے سبزی لیتی ہے. تھوڑے سے پیار اور محبت سے آپ سسرال میں سب کا دل جیت سکتی ہیں…….