نگران دارالامان کی آپ بیتی
میں لاہور میں ایک دارالامان کی نگران تھی. ایک دن میری ملاقات ایک ایسی مصیبت کی ماری لڑکی سے ہوئی ویسے تو وہاں پر سبھی مظلوم عورتیں آتی تھیں مگر اس میں کچھ خاص بات تھی. وہ خوبصورت اور خوش اخلاق لڑکی تھی مگر جب اس کو وہاں لایا گیا تو وہ بہت رو رہی تھی میں اس سے اس کے رونے کی وجہ جاننا چاہتی تھی. میں نے اس سے دو تین بار پیار سے پوچھا مگر اس نے کچھ نہیں بتایا. دارالامان کا یہ اصول ہے کہ یہاں پر آنے والی کسی بھی لڑکی یا عورت کو مجبور نہیں کیا جاتا کہ وہ یہ نے سمجھے کہ یہ لوگ اسے مجبور کر رہے ہیں. میں نے اسے اس کے بستر پر جا کر بیٹھا دیا وہ سرخ آنکھوں سے مجھے دیکھتے لگی، میں نے کہا کہ تمہیں کچھ چاہئے تو بتا دو. وہ کہنے لگی مجھے زیادہ بات کرنے کی عادت نہیں ہے آپ مجھے ایک رسالہ لا دیں کہ میں اسے پڑھتے پڑھتے سو جاؤنگی. میں نے پوچھا اور کچھ چاہئے تو بتا دو کہنے لگی کہ میں ایسی جگہ پر رہنا چاہتی ہوں جہاں زیادہ عورتیں نہ ہوں ورنہ ان کی باتوں کی وجہ سے میں سو نہیں سکونگی. میں نے سامنے والے کمرے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ وہ کمرہ خالی ہے مگر وہاں کوئی پلنگ نہیں ہے. وہ کہنے لگی کہ میں فرش پر بستر لگا لونگی مجھے اچھا لگتا ہے فرش پر سونا. میں نے کہا ٹھیک ہے جب تک کوئی اور عورت نہیں آتی تم وہاں پر سو جاؤ مگر جب کوئی آگئی تو تمہیں کمرہ شیئر کرنا ہوگا. کتنا پڑھی ہو جو اخبار مانگ رہی ہو ؟ اس نے کہا بس میٹرک پاس ہوں. میں نے اسے چائے اور پھر کھانا بھجوا دیا وہ کھا کے سو گئی.
میری ڈیوٹی شام 5 بجے تھی اگر بعد میں کوئی مسلہ ہوتا تو چوکیدار مجھے آکر بتا دیتا تھا میں وہاں پاس میں ہی رہتی تھی. اگلے دن جب میں دفتر گئی تو وہ میری منتظر تھی وہ پہلے سے زیادہ بہت پر سکون تھی. وہ میرے پاس آئی تو میں نے کہا کہ، رابعہ کیسی ہو ؟ اس نے قدرے خوش مزاجی سے کہا، میں آج بلکل ٹھیک ہوں. میں نے اپنے سامنے والی کرسی پر اسکو بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ بڑی ہی تھذیب سے وہاں بیٹھ گئی. میں نے اس سے چائے کو پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا. اسے چائے بہت پسند تھی اور اس کا موڈ بھی بہت خوش گوار تھا. میں نے اسے کہا کہ رابعہ الله پاک ہر انسان کو اس کا نصیب سنوارنے کا موقع دیتا ہے کل تم بہت رو رہی تھیں کیا تم مجھے اپنے بارے میں کچھ بتاوگی شاید میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں. اسنے کہا کہ میڈم، مدد کرنے کا شوق تو سبھی کو ہوتا ہے اور سبھی سبز باغ دکھاتے ہیں مگر مدد کوئی نہیں کرتا. مگر میرے یقین دلانے پر اسنے اپنی کہانی سنانی شروع کی. میں چھ سال کی تھی جب میرے والد کا انتقال ہوا تھا وہ بہت شفیق تھے مجھے ان کی ایک ایک بات اب تک یاد ہے. میرا ایک ہی بھائی تھا ہم پر وہ بہت ہی برے دن تھے. امی مشقت کر کے ہمیں پال رہیں تھیں وہ چاہتی تھیں کہ ہم بڑے ہو کر کچھ بن جائیں ہمارا کوئی رشتے دار بھی نہیں تھا جو ہماری مدد کرتا، امی کپڑے سی کر اور بڑیاں بنا کر دکان داروں کو بینچتی تھیں اور کیریوں کے موسم میں اچار ڈال کر سٹور پر دیا کرتی تھیں. بھائی پر امی کو اور مجھے امید تھی کہ وہ ہمارا سہارا بنے گا مگر نویں میں اس نے بھی پڑھائی چھوڑ دی اس کی دوستی محلے کے ایک آوارہ لڑکے سے ہو گئی تھی، وہ عمر میں بھائی سے دس سال بڑا تھا میرے بھائی عمران نےپڑھائی چھوڑ کر ہم دونوں کو بہت دکھ دیا تھا. اب میں نے اور بھی جوش سے پڑھنا شروع کیا کہ جانتی تھی اب اپنی امی کی امید میں ہی ہوں میں نے بھی سوچا پڑھ لکھ کر کوئی اچھی جاب مل جائے گی تو پہلے امی کا علاج کراونگی. عمران سارا دن باہر آوارہ لڑکوں میں پھرتا رہتا تھا اس کا کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کہا جاتا ہے کیا کرتا ہے. جیسے تیسے کر کے میں نے میٹرک کر لیا اور اب کالج میں داخلہ لینے کا سوچا کہ ایف.اے کرلونگی تو اچھی جگہ جاب مل جائے گی میں نے ایک کالج میں داخلہ لیا اپنی پرنسپل کو اپنے گھر کے حالات بتائے تو انہوں نے میری فیس معاف کروا دی اور کہا کہ اگر تمہاری امی کالج کینٹین کے لئے کباب بنا دین تو میں کینٹین میں لگوا دونگی امی نے حامی بھر لی اور اس سے ہمیں اچھی خاصی آمدنی آنے لگی کہ دو وقت کی روٹی ہم ماں بیٹی کو مل جاتی تھی میں بھی شام کو گھر آکر بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگی. عمران کو اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ہم دونوں کیسے گزارہ کر رہی ہیں اب وہ کئی کئی ہفتے گھر سے باہر رہتا تھا اور جب گھر آتا تو اگر کھانا بنا ہوتا تو کھا لیتا ورنہ سو جاتا شام کو اٹھتا نہا دھو کے پھر چلا جاتا ہم کسی سے بھی نہیں پوچھ سکتے تھے کہ وہ کہا ہے. ایک دن وہ گھر آیا اور آکر سو گیا اتنے میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے کھولا تو پولیس تھی دروازہ کھولتے ہی وہ اندر گھس ائے اور عمران کو پکڑ کر لے گئے، ہم دونوں اتنا گھبرا گئیں کہ کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کیوں اس کو پکڑ کر لے جا رہے ہیں اس نے کیا کیا ہے؟
ایک ہفتے تک جب عمران گھر نہیں آیا تو امی پڑوس کے گھر میں گئیں اور انکی منت کی کہ وہ جا کر پتا کریں کہ عمران کو کیوں پکڑا ہے؟ آجکل پولیس کے چکروں میں کون پڑتا ہے، امی کے پاس سونے کی دو چوڑیاں تھیں جو انہوں نے کسی برے وقت کے لئے رکھی تھی اس سے برا وقت اور کیا ہو سکتا تھا امی نے وہ چوڑیاں شریف بھائی کو دین اور کہا، بھائی میری کل جمع پونجی بس یہی ہے. وہ گے تو پتا چلا کہ بھائی جن لوگوں میں بیٹھتے تھے وہ لوگ اچھے نہیں تھے غلط کاموں میں ملوث تھے. شریف بھائی ایک اچھے انسان تھے انہوں نے امی کی مدد فی سبیل الله کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک اچھا وکیل کر کے بھائی کی ضمانت کروا دی . عمران اب اپنے کئے پر بہت شرمندہ تھا وہ امی اور مجھسے معافیاں مانگ رہا تھا کہ وہ اپنے گھر کی زمیداریوں سے بھٹک گیا تھا اب اس نے ایک اچھا انسان بننے کا وعدہ کیا تھا ہمارے کہنے پر اس نے ان برے لوگوں کے بارے میں ساری معلومات پولیس کو دے دی تھی پولیس نے ان کے اڈوں پر چھاپے مار کر بہت سے لوگونا کو پکڑ لیا تھا. ہم بھائی کو ان لوگوں کے ڈر سے گھر سے باہر نہیں نکالتے تھے سودا سلف پہلے بھی ہم ہی لاتے تھے. ایک دن میرے رشتے کے لئے کچھ لوگ ائے ان کے کھانے پینے کی چیزیں آنی تھی امی ان کے پاس سے نہیں جا سکتی تھیں اور میں اس لئے نہیں جا سکتی تھی کہ وہ کیا سوچیں گے کہ بھائی کے ہوتے ہوۓ میں جا رہی ہوں. عمران نے کہا کہ مجھے پیسے دو میں لا کر دیتا ہوں امی نے پیسے دئے اور کہا کہ سامنے والی بیکری سے لے آنا عمران چلا گیا مگر وہ وقت ہماری بدقسمتی کا تھا کہ وہ لوگ اس کے انتظار میں تھے یا انہوں نے اسے دیکھ لیا تھا کہ گولیوں کی بوچھاڑ کر دی. مہمان بھی انتظار کر کے چلے گئے امی نے جانماز بچھائی اور الله سے دعا کرنے لگیں میں نے باہر گلی میں لوگوں کا شور سنا تو میرا دل بھی ڈر گیا مگر میں نے بھی امی سے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی امی نے ڈرتے دل کے سایہ دروازہ کھولا تو کسی نے کہا کہ گلی کے کونے پر تمہارا بیٹا بیہوش پڑا ہے امی اور میں بھاگتے ہوۓ گئے تو وہ زخمی حالت میں پڑا تھا کوئی اس کو اٹھا کر ہسپتال نہیں لے جا رہا تھا ہمنے پولیس کو اور ایمبولینس کو فون کیا ہسپتال جانے پر پتا چلا کہ زخمی ہونے کے بعد وہ تھوڑی دیر زندہ رہا مگر خون زیادہ بہ جانے کی وجہ سے وہ زندگی کی بازی ہار گیا. میری ماں یہ صدمہ برداشت نہیں کر سکی اور ایک ہفتے کے بعد ہی وہ بھی اس کے پاس چلی گئی مجھے چھوڑ کر ماں نے میرا نہ سوچا کہ مجھپے کیا گزرے گی میں اس بھری دنیا میں بنا سہارے کے کیسے رہونگی.
ایک ماہ تک محلے کی عورتیں میرے ساتھ باری باری رہتی رہیں مگر کوئی کب تک سنبھالتا مجھے. کالج کے دنوں میں ایک لڑکا تھا جو مجھے پسند کرتا تھا اس نے مجھے کہا تھا کہ وہ مجھسے شادی کرے گا مگر اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد مگر میرے پاس اس کا نمبر نہیں تھا میں کالج گئی اور وہاں سے اس کا نمبر لے کر اسے فون کیا اور اس کو ساری بات بتائی تو اس نے یہ کہ کر شادی کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا کہ جس کے بھائی کا تعلق کسی گروہ سے رہا ہو اور وہ اس گروہ کے ہاتھوں قتل بھی ہوا ہو. میرے اوپر یہ پہاڑ کیا کم تھا کہ میں اس بھری دنیا میں اپنے خاندان کو کھو بیٹھی تھی کہ میرے سپنوں کے شہزادے نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا. پھر میں اپنی ایک بہت ہی گہری دوست رقیہ کے گھر گئی کہ شاید اس کے گھر میں مجھے پناہ مل جائے مگر اس کے گھر والوں نے بھی انکار کر دیا اس کے ایک ماموں نے کہا کہ دارالامان میں چلی جاؤ وہاں تمہیں چھت مل جائے گی اس جگہ کے بارے میں بہت سی باتیں سنی ہوئی تھیں مگر مجھے یہاں آپ جیسی مہربان اور ہمدرد دوست مل گئی.
اسکی کہانی سن کر مجھے اس سے اور بھی ہمدردی ہونے لگی. ایک دن مجھے لینے میرا بھائی شہریار آیا اور مجھسے پوچھنے لگا کہ کیا یہاں کوئی رابعہ نام کی لڑکی بھی آئی ہے میں نے پوچھا کیا تم اسے جانتے ہو اسنے مجھے بتایا کہ وہ اور رابعہ ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے میں سمجھ گئی کہ وہ لڑکا اور کوئی نہیں میرا اپنا بھائی ہی تھا جس نے اسے چھوڑا تھا، میں نے کہا کہ بھائی وہ اب بھی تم سے ہی پیار کرتی ہے تم اس سے شادی کرلو، مگر وہ بولا کہ نہیں میں ایسی لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا جو دارالامان میں رہتی ہو. میرا رشتہ آیا اور منگنی ہو گئی اور چند مہینوں بعد ہی میں نے رخصت ہو کر امریکہ چلے جانا تھا میں نے رابعہ کو کچھ نہیں بتایا اور میں شادی ہو کر امریکہ آگئی میری شادی کو پندرہ سال ہو گئے ہیں میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ بہت خوش ہوں مگر مجھے جب بھی رابعہ کا خیال آتا ہے میں نے بھائی سے کہا کہ مجھے دارالامان سے پتا کر کے اس کے بارے میں بتاؤ مگر اس نے مجھے کبھی کچھ نہیں بتایا . “رابعہ سچ کہتی تھی، مدد کرنے کا شوق تو سبھی کو ہوتا ہے اور سبھی سبز باغ دکھاتے ہیں مگر مدد کوئی نہیں کرتا.”