پارسیوں کا قبرستان، کسی ڈرائونے خواب جیسا وحشتناک۔۔ یہ تصویر ممبئی میں مالابار ہلز پر واقع پارسی مینار خموشاں کی ہے۔ پارسی مذہب کے مطابق پانی، ہوا، سورج اور آگ اتنی پاک اشیاء اور مقدس عناصر ہیں کہ ان کے تقدس کو بحال رکھنے کے لیے وہ جو بن پڑے کرتے ہیں۔ نتیجتاً پارسی مذہب کے پیروکار سمجھتے ہیں کہ مُردوں کو دفنانے یا جلانے سے یہ عناصر ناپاک ہو سکتے ہیں لہذٰا وہ اپنے مُردوں کو دفنانے یا جلانے کے بجائے اونچے مینار یا پہاڑوں پر گدھوں کے آگے ڈال دیتے ہیں، اور ایسے مینار کو ٹاور آف سائلنس یا مینارِ خموشاں کہا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص گِدھوں کی ختم ہوتی نسل نے پارسی مذہب کے پیروکاروں کو اپنی صدیوں پرانی رسم ترک کرنے پر مجبور کردیا ہے گو پارسی مذہب پر چلنے والے اب بھی اپنے مُردوں کو گدھوں کے آگے ڈالنے کو ہی بہتر سمجھتے ہیں۔
کراچی پارسی انجمن کے سربراہ بہرام ڈی آواری کہتے ہیں کہ بیشک بڑے شہروں میں گدھوں کی موجودگی نہ ہونے سے پریشانی ضرور ہے لیکن ممبئی کی طرز پر کراچی کے مینارِ خموشاں میں سٹین لیس سٹیل کی شیٹیں لگائی گئی ہیں تاکہ دھوپ کی حدت سے مرنے والے کا جسم جلد از جلد ختم ہوسکے۔ ان کے بقول ممبئی میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مینارِ خموشاں پر شمسی توانائی کے لیے سولر ریفلیکٹرز لگائے گئے ہیں۔ بہرام آواری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارسی مذہب چار ہزار سال پرانا ہے اور مردوں کو گِدھوں کے آگے ڈال دینے کی یہ رسم قدیم زمانے سے جاری ہے۔ اِس وقت پاکستان میں پارسیوں کی تعداد دوہزار کے لگ بھگ ہے جن میں سے زیادہ تر کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ بہرام ڈی آواری کے بقول مرنے کے بعد جسم کو مینارِ خموشاں پر رکھا جاتا ہے جہاں چار گھنٹے کے اندر گدھ مردہ جسم کو کھا جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مینارِ خموشاں عموماً شہر سے باہر ہوتا تھا لیکن شہر بڑے ہونے کے بعد یہ شہر کے اندر آچکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک کتاب کی مصنفہ نے 1925 میں لکھا کہ کراچی میں گدھ ناپید ہیں اور اُس وقت سے اب تک مذہب کے مطابق ہی مُردے کی رسومات انجام دی جارہی ہیں۔ بہرام آواری نے بتایا کہ یہ نظام یا رسم اب بھی جاری ہے اور اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک تو گِدھوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور دوسرے اب پارسیوں میں بھی تفریق ہوچکی ہے۔ ان میں سے کئی افراد اب دفنائے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن بہرام آواری نے کہا کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ ان کے بقول پارسی مذہب بھی مذہبِ اسلام کی طرح قابلِ عمل ہے اور اس میں لچک ہے۔ ’جس طرح اسلام میں پانی سے وضو ضروری ہے لیکن پانی دستیاب نہ ہونے پر بغیر پانی کے بھی وضو کیا جاسکتا ہے جسے تیمم کہتے ہیں۔ ان کے بقول جو افراد اس حق میں ہیں کہ انہیں دفنایا جائے انہیں دفن ادیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے پشاور، لاہور اور اسلام آباد میں پارسیوں کے قبرستان موجود ہیں۔ بہرام ڈی آواری کے بقول پارسی برادری نے گدھوں کی افزائشِ نسل کے لیے کبھی کوشش نہیں کی۔ ان کا کہنا ہے کہ کبھی اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی۔ ابھی بھی کراچی میں مرنے کے بعد جسم کو مینارِ خموشاں پر رکھا جاتا ہے اور وہ کسی بھی تعفن کے بغیر ختم ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مینارِ خموشاں کے اطراف میں رہائش پذیر افراد نے کبھی بھی کسی قسم کی شکایت نہیں کی۔
پارسی برادری نے تو گِدھوں کی افزائشِ نسل کے بارے میں کوشش نہیں کی لیکن عالمی جنگلی حیات کا ادارہ یعنی ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان اس سلسلے میں کام کررہا ہے۔ لاہور میں واقع اس ادارے کے دفتر میں کام کرنے والی ایک افسر عظمٰی سعید نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ پاکستان میں آٹھ مختلف قسم کے گِدھ پائے جاتے ہیں جن میں سے تین اقسام کے گدھوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے اور یہ پنجاب اور سندھ کے چند علاقوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ گدھوں کی تعداد میں کمی کی ایک بڑی وجہ بیان کرتے ہوئے عظمٰی سعید کا کہنا ہے کہ جانوروں کو درد رفع کرنے کے لیے ڈیکلوفینک سوڈیم نامی دوا دی جاتی ہے۔ تاہم ان جانوروں کے مرنے کے بعد دوا کا اثر ان کے جسم میں رہتا ہے اور جب گدھ انہیں کھاتے ہیں تو وہ دوا گدھوں پر بھی اثر کرتی ہے جس سے ان کے گردے ناکارہ ہوجاتے ہیں اور ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اور بھی وجوہات ہیں جن میں مردہ جانوروں کی کمی بھی شامل ہے جو گدھوں کی خوراک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیکلوفینک سوڈیم پر حکومت نے سن 2006 میں پابندی لگا دی تھی لیکن وہ اب بھی دستیاب ہے اور استعمال کی جارہی ہے۔ انہوں نے اپیل کی کہ اس دوا کو استعمال کرنے سے پرہیز کیا جائے کیونکہ یہ گدھوں کی نسل کے خاتمے اور نتیجتاً ماحولیاتی عدم توازن کا سبب بن رہی ہے۔ ان کے بقول ڈبلیو ڈبلیو ایف امریکہ اور ماحولیاتی ایجنسی ابوظہبی کی مالی معاونت سے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے ایک پراجیکٹ شروع کیا ہے جس کے تحت اب تک گیارہ گدھوں کو محفوظ کرلیا گیا ہے جبکہ نو کو مزید پکڑا جائے گا اور ان کی افزائش نسل کی جائے گی۔ اس وقت سفید پشت والے گدھوں کی افزائش کی جارہی ہے جو پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جاتے تھے اور اب خطرناک حد تک کم ہوچکے ہیں۔