Mubarrah Urdu Nazam

وحشتوں کے نگار خانوں سے

اُردو نظم

وحشتوں کے نگار خانوں سے

خون آلود لاش اٹھائے

خمار مستی میں‛

وارفتگی جنوں میں‛

چلے جارہے تھے

لاش کو تابوت میں سجائے

مئے کو ہونٹوں سے لگائے

تھوک ڈالا لہو سارا

خون آلود لاش کو مزید خون

آلود کر کہ

سب روحیں نشے کے سرور میں تھیں

یکایک ُغل مچا

لاش میں ہللکی سی جنبش ہوئی۔

آخری کیل عقل والوں کی عقل میں

ٹھونک دی گئ

عقل سلب ہو گئ

خمار مستی والے اب بھی جھوم رہےتھے۔

لاش اب زندہ وجود بن رہی تھی

اور چپ سادھے عقل والوں کی

بےبسی کے ماتم کو دم بخود تکے جارہی تھی

اور اپنے خون آلود‛ اجڑے ‛ لاش زدہ وجود کو مسرت سے تکے جارہی تھی۔

کہ اسےدفنایا نہیں گیا

عقل والوں سے دور ہے۔

خمار مستی والوں سے اسے کیا لینا؟

وجود لاش ہی سب سے جدا ہے۔

مبرّا

error: Content is protected !!