ہر سو گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا،ہاتھ کو ہاتھ بھی سوجھائی نہ دیتا تھا-اندھیرے اور دور افتادہ چھائی ہوئی خامشی نے ماحول کو خوفناک بنایا ہواتھا-گویا خدشہ تھا کہ کہیں انسانی وجود کو خطرہ لاحق ہو-پورا شہر قبرستان کی منظر کشی کر رہا تھا- ایسے ماحول میں ایک گھر کے کمرے میں ہلکی سی روشنی میں ایک ہیولا نمودار ہوا-اس کا چہرہ منفرد تھا،بالکل اس مسافر کی طرح جو راستے میں سب کحچھ لٹا چکا ہو مگر منزل ہی اس کا ٹھکانہ ہو-وہ تھا ارحم مصطفی،اس شہر کا مشہور مصنف…کہانیاں بننا اور لفظوں سے کھلینا اس کا شیوہ تھا. زندگی کے اب تک کے سفر میں اس نے اتنے کردار رقم کیے کہ اب اس کے پاس الفاظ نہیں کہ وہ کیسے اپنے درد اور کرب کو کہانی کا روپ دے-وہ لکھنا چاہتا تھا،اپنے لیے نہ سہی مگر اس آنے والی نسل کے لیے جو جان پاۓ کہ اس کے اور اس کے شہر کے باشندوں کو کیسے زندہ درگورکیا گیا-کیسے ان کے گھروں کو ماتم کدے میں بدل دیا گیا-جب ساری دنیا خوشیوں اور مستیوں میں مگن تھی تو کیسے اس کے شہر کے مکینوں کے لاشے بے آبرو ہو رہے تھے. وہ بتانا چاہتا تھا کہ مرنے سے پہلے اس کے اپنے محسوسات کیاہیں!! ادیب کمزور نہیں ہوتا’دیوانہ نہیں ہوتا. اس کا احساس نہیں مرتا…وہ یہ سب بتانا چاہتا تھا-مگر آج ایسے انسان کے پاس خود کو بیان کرنے کے لیے لفظ نہ تھے. وقت اس قدربے رحم ہو جاۓ گا،اس نے کھبی اس بات کا گماں تک نہ کیا تھا-اسے لفظوں کی جگہ ہر سو خون کے چھینٹے دکھائی دے رہے تھے-ارحم کو گماں گزرا کہ کہیں اس کی بینائی اثر انداز نہ ہو گئ ہو،اس خیال کے زیر سایہ وہ واش بیسن کی جانب لپکا اور آنکھوں پہ پانی کے چھینٹے مارنے لگا.
مگر کہاں؟ اسے اب بھی ہر طرف خون دکھائی دے رہا تھا-اس کے اندر سے آواز آئی کہ: “تم قاتل ہو،ہاں تم قاتل ہو، ارحم مصطفی،تم اس بھری بستی کی خوشیوں کے قاتل ہو-تم نے ان کا خون کیا ہے. میں نے کب قتل کیا؟ میرے پاس کب کوئی آلہ ہے؟ میں تو ایک قلم کار ہوں-میں کیسے قتل کر سکتا ہوں؟ ارحم کے اندر جنگ چھٹری ہوئی تھی،وہ ضمیر کی عدالت میں مجرم بنا کھڑا تھا-ایک ایسا مجرم جس پر کوئی بھی فرد جرم عائد نہ تھی اور وہ پھر بھی قصور وار گردانا جارہا تھا. قاتل…خون…قاتل…خون
جیسے کہ کمرے میں چاروں طرف یہی الفاظ کندہ ہوں-انہی الفاظ کے گرداب میں ایک ننھی پری کی تصویر تھی،ارحم کی نظریں اس تصویر پر جم گئیں،وہ اس کی دلاری اور لاڈلی آیت کی تصویر تھی-آیت کے اندر فطری طور پر وطن سے محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا-وطن سے اس کی الفت دیدنی ہوتی. ایک دن وہ اپنے بابا سے ضد کر کے گھر کی چھت پر اپنے دیس کی شان بڑھانے کے لیے قومی جھنڈا لہرا رہی تھی کہ انسانیت کے درندوں نے اس پری سے اس کا بچپن چھین کر اسے موت کی آغوش میں سلا دیا. منظر کیا تھا؟ ارحم کے ہاتھ سے وہ تصویر گر کر چکنا چور ہو گئ-اس پر خوف کا لرزہ طاری ہو گیا. اس کے خیال کا ایک حصہ نوحہ گروں کا بھی تھا-مگر وہ ان کا حصہ بننا نہیں چاہتا تھا-اس نے سدا خوشی کو لکھا تھا، تو اب وہ کیوں یاسیت اور مایوسی کا نعرہ چاروں اور لگاۓ؟؟. وہ کیوں ایسا کرے؟ اپنے محسنوں کو راہزن کیوں کر لکھے؟ ارحم نے مدد کی اپیل کرنے والے ہر فرد کو یہ کہہ انکار کر دیا کہ وہ اتنا نمک حرام نہیں کہ اپنے مالکوں کے خلاف اپنا قلم استعمال کرے. آج اسی ارحم مصطفی اس کی بستی کو برباد کر دیا گیا-اس کے محسنوں نے راہزنوں کا روپ دھار لیا-تب بھی اس کی روح نہ تڑپی مگر آیت کے خیال نے اسے یہ ماننے پہ مجبور کر دیا کہ وہ مجرم ہے-قاتل ھے.. وہ پھر سے لکھنے کے لیے بیٹھ گیا تاکہ وہ جاتے جاتے کچحھ اچھا لکھ جاۓ جس سے اس کا فرض پورا ہو جاۓ. “الفاظ جینے کا سہارا بن سکتے ہیں،قلم آدمی کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، مجھے پتہ ہے کہ میں مجرم ہوں کیونکہ میں نے اپنا یہ ہتھیار مظلوموں کو بچانےکے لیے استعمال نہیں کیا-میں چپ رہا تو میں بھی قاتل ہوں،مجرم ہوں-اے لوگو،خدارا تم . سے کوئی بھی ایسا مجرم نہ بنے،جیسا آج میں ہوں. اور ایسا جرم ہر ادیب کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا مگر صرف وہ جس کے نزدیک اس کے الفاظ بے وقعت ہوں گۓ. ایک زوردار گونج ہوئی اور اس کے ہاتھ سے قلم لڑھک کر زمین پہ آگرا- ہوا کے دوش پر سب صحفات ادھر ادھر بکھر گۓ،ان ہی میں سے ایک صحفہ کے اختتام پہ درج تھا کہ.
“ھم نہ ہوں گے تو کوئی ہم سا ہو گا”