نظر کی نذر
اسکی نظر سے گرتے ہی میری نظر بھی تیزی سے گرنا شروع ہو گئ ـ اور میں اپنی نظر، اسکی نذر کرنے کے باوجود نہ اپنی نظر اور نہ ہی خود کو سنبھال سکا ـ انسان اور مکان ایک بار گر جاےء تو دوبارہ کب اٹھتے ہیں ـ دونوں ڈھے جاتے ہیں ـ البتہ ایک کی از سرِنو تعمیر ممکن ہے جبکہ دوسرے کی تعمیر ناممکن ہےـ
دونوں ایک دم سے دھڑام کر کے گر جائیں یا آہستہ آہستہ، دھیرے دھیرے زمیں بوس ہوں مگر دوبارہ کبھی کھڑے نہیں ہوتے ـ کسی بھی چیز سے گر کر آنے والی چوٹیں جلد یا بدیر نارمل ہو جاتی ہیں آرام آجاتا ہے اور زخم بھر جاتا ہے ـ انسان دوبارہ اپنء قدموں پہ کھڑا ہو جاتا ہے ـ مگر نظر سےگرنے کے بعد انسان بظاہر کھڑا ضرور رہتا ہے، نہ چوٹ آتی ہے نہ درد ہوتا ہے، نہ مرہم کی ضرورت ہوتی ہے، نہ دوا کی نہ دوا کی حاجت ہوتی ہے نہ طبیب کی ـ
مگر درد ہے کہ رکتا ہی نہیں ـ اندر ہی اندر انسان کو گُھن لگ جاتا ہے ـ دیمک زدہ درخت کی طرح انسان کو ٹھوکر لگتی ہے ـ لوگ کہتے ہیں” کتنا جوان ہے، پر نظر چلی گئی جوانی میں ” اور جوان اندر سے کھوکھلا، ٹھوکر کھا کر زمین بوس ہو جاتا ہے ـ کسی اندھے کنوئیں ، بنا ڈھکنے کے گٹر، سامنے سے آتی تیز گاڑی، سیڑھیوں سے پھسلا ہو قدم اور آنِ واحد میں نظر کے ساتھ نظر والا بھی اسکی نظر ہو جاتا ہے ـ بس نظر سے گرنے کی دیر ہے پھر نظر کی ضرورت کس کافر کو رہتی ہے ـ