حجاج بن یوسف کے نام سے سب واقف ہیں، حجاج کو عبدل ملک نے مکہ، مدینہ طائف اور یمن کا نائب مقرر کیا تھا اور اپنے بھائی بشر کی موت کے بعد اسے عراق بھیج دیا جہاں سے وہ کوفہ میں داخل ہوا، ان علاقوں میں بیس سال تک حجاج کا عمل دخل رہا اس نے کوفے میں بیٹھ کر زبردست فتوحات حاصل کیں، اس کے دور میں مسلمان جاہدین، چین تک پہنچ گئے تھے، حجاج بن یوسف نے ہی قران پاک پر اعراب لگوائے، الله تعالی نے اسے بڑی فصاحت و بلاغت اور شجاعت سے نوازا تھا حجاج حافظ قران تھا. شراب نوشی اور بدکاری سے بچتا تھا. وہ جہاد کا دھنی اور فتوحات کا حریص تھا. مگر اسکی تمام اچھائیوں پر اسکی ایک برائی نے پردہ ڈال دیا تھا اور وہ برائی کیا تھی ؟ “ظلم“
حجاج بہت ظالم تھا، اسنے اپنی زندگی میں ایک خوں خوار درندے کا روپ دھار رکھا تھا..ایک طرف موسیٰ بن نصیر اور محمد بن قاسم کفار کی گردنیں اڑا رہے تھے اور دوسری طرف وہ خود الله کے بندوں،اولیاں اور علما کے خوں سے ہولی کھیل رہا تھا. حجاج نے ایک لاکھ بیس ہزار انسانوں کو قتل کیا ہے ،اس کے جیل خانوں میں ایک ایک دن میں اسی اسی ہزار قیدی ایک وقت میں رہے ہیں ،جن میں سے تیس ہزار عورتیں تھیں. اس نے جو آخری قتل کیا وہ عظیم تابعی اور زاہد و پارسا انسان حضرت سعید بن جبیر رضی الله عنہ کا قتل تھا ، انہیں قتل کرنے کے بعد حجاج پر وحشت سوار ہو گئی تھی ، وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا ، حجاج جب بھی سوتا ، حضرت سعید بن جبیر اس کے خواب میں ا کر اسکا دامن پکڑ کر کہتے کہ اے دشمن خدا تو نے مجھے کیوں قتل کیا میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا ؟ جواب میں حجاج کہتا کہ مجھے اور سعید کو کیا ہو گیا ہے ،
اس کے ساتھ حجاج کو وہ بیماری لگ گئی زمہریری کہا جاتا ہنے ،اس میں سخت سردی کلیجے سے اٹھ کر سارے جسم پر چھا جاتی تھی ،وہ کانپتا تھا ،اگ سے بھری انگیٹھیاں اس کے پاس لائی جاتی تھیں اور اس قدر قریب رکھ دی جاتی تھیں کہ اسکی کھال جل جاتی تھی مگر اسے احساس نہیں ہوتا تھا ،حکیموں کو دکھانے پر انہوں نے بتایا کہ پیٹ میں سرطان ہنے ،ایک طبیب نے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اسے دھاگے کے ساتھ باندھ کر حجاج کے حلق میں اتار دیا. تھوڑی دیر بعد دھاگے کو کھینچا تو اس گوشت کے ٹکڑے کے ساتھ بہت سارے کیڑے لپٹے ہوۓ تھے .حجاج جب مادی تدبیروں سے مایوس ہو گیا تو اس نے حضرت حسن بصری رحمتہالله علیہ کو بلوایا اور انسے دعا کی درخواست کی ،وہ ہے اور حجاج کی حالت دیکھ کر رو پڑے اور فرمانے لگے میں نے تجھے منع کیا تھا کہ نیک بندوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنا، ان پر ظلم نہ کرنا ،مگر تو باز نہ آیا …آج حجاج عبرت کا سبب بنا ہوا تھا. وہ اندر ،باہر سے جل رہا تھا ،وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا. حضرت بن جبیر رضی الله تعالی عنہ کی وفات کے چالیس دن بعد ہی حجاج کی بھی وفات ہو گئی تھی.
دونوں کی اموات میں فرق تھا ،ایک کو شہید کی موت نصیب ہوئی ،اور مرتے وقت ان کے چہرے پر نور اور مسکراہٹ تھی. لیکن حجاج جب دنیا سے جا رہا تھا تو وہ اندر باہر سے بھی جل رہا تھا ،چہرے پر ندامت تھی .اسے اپنا ایک ایک ظلم یاد ا رہا تھا